پھول سے ہاتھ ہیں، التجا ہے مگر ، مر نہ جائیں کہیں تتلیاں چھوڑیے
جسم نازک ہیں ان کے بکھر جائیں گے، بے زبانوں سے یوں مستیاں چھوڑیے
میں محبت میں بِکتا رہا ہوں سدا ، کوئی میری غرض تھی نہ مجبوریاں
آپ کے ہر اشارے پہ ناچوں گا میں، آپ ایسی غلط فہمیاں چھوڑیے
خوبصورت تو آنکھیں بہت ہیں مگر ان میں کس خوف سے خواب رکھے نہیں
حوصلہ کیجیے اور شیشے کی ان مرتبانوں میں اب مچھلیاں چھوڑیے
ہم فقط آپ سے ملنے آئے ہیں اور آپ کو خود سے فرصت نہیں مل رہی
سامنے بیٹھیے ، منہ ادھر کیجیے، پھر بنا لیجے گا سیلفیاں چھوڑیے
ہم نے شہباز نیّر بھری زندگی اپنے دم پر گزاری ہے سو ڈر نہیں
آپ کے دل میں جو آئے کر لیجیے ، یہ بچھڑ جانے کی دھمکیاں چھوڑیے
شہباز نیر