Cheekhta hoon kaan main Nasha uter janay kay baad
غزل
چیختا ہوں کان میں نشہ اتر جانے کے بعد
یعنی وہ ہوتا ہے جو ہوتا ہے مرجانے کے بعد
روز کستا ہوں طنابیں خیمہِ امید کی
ہے یہی مصروفیت خود سے مکر جانے کے بعد
زندگی تیری کہانی کا میں وہ کردار ہوں
جو سمجھ آئے گا دنیا کو گزر جانے کے بعد
مونگ دلتی ہے مرے سینے پہ تنہائی مری
بزمِ یارانِ چمن کو لوٹ کر جانے کے بعد
بس اسی امید پر میں کر نہ پایا خود کشی
کوئی تو اک شعر کرلے گا سفر جانے کے بعد
اپنے ہونے کا میں دعویٰ کس بھروسے پر کروں
خود کو مردا دیکھتا ہوں اپنے گھر جانے کے بعد
عکس جو میں نے کیا ہے سینہِ قرطاس پر
آئے گا دنیا سمجھ تجھ کو نظر جانے کے بعد
پیڑ جو میں نے لگائے ہیں سخن کے نام پر
کھائیں گے بچے مرے اس کا ثمر جانے کے بعد
زندگی میں بھی جیوں گا ایک اپنے واسطے
لوٹ آیا بزمِ الفت میں اگر جانے کے بعد
جانتا ہوں ایک دن موجِ نسیمی با خدا
بند ہوجائیں گے وا یہ سارے در جانے کے بعد
نسیم شیخ
Naseem Shaikh