loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

06/08/2025 20:45

وصال یار بھی ہے دور میں شراب بھی ہے

وصال یار بھی ہے دور میں شراب بھی ہے
قمر بھی ہے مرے پہلو میں آفتاب بھی ہے

یہ حسن کی نہیں جادوگری تو پھر کیا ہے
کہ تیری آنکھ میں شوخی بھی ہے حجاب بھی ہے

کسی کو تاب کہاں ہے کہ تجھ کو دیکھ سکے
جو نور ہے ترے رخ پر وہی نقاب بھی ہے

ثبوت عشق کو یہ دو گواہ کافی ہیں
جگر میں داغ بھی ہے دل میں اضطراب بھی ہے

غرور حسن تجھے جس قدر ہو زیبا ہے
خدا کے فضل سے صورت بھی ہے شباب بھی ہے

ستم کی چال ستم کی ادا ستم کی نگاہ
ترے ستم کا ستم گر کوئی حساب بھی ہے

مرے لیے نہیں پینے کی کچھ کمی ساقی
کہ چشم مست بھی ہے ساغر شراب بھی ہے

جلیلؔ نے تمہیں چاہا تو کیا گناہ کیا
تمہیں بتاؤ تمہارا کوئی جواب بھی ہے

جلیل مانک پوری

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم