دل لیا ایماں لیا اور بے سر و ساماں کیا
یہ میرا کیسا بھرا گھر عشق نے ویراں کیا
یہ خدا کی مصلحت اس کی شکایت کیا کریں
دی بتوں کو اس نے دانائی ہمیں ناداں کیا
دین اور دنیا کے جھگڑے سے جو دی مجھ کو نجات
یہ بڑا اے حضرت عشق آپ نے احساں کیا
عاشقوں کو پھر قضا آئی قیامت ہو گئی
پھر سمند ناز کو اس ترک نے جولاں کیا
دیکھیے رہتی ہے کل مقتل میں کس کی آبرو
آج پھر سفاک نے ہے نیمچہ براں کیا
اور اوگھٹؔ کیا تھا میرے پاس جو کرتا نثار
حضرت وارثؔ کے صدقے دین اور ایماں کیا
اوگھٹ شاہ وارثی