loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

19/04/2025 09:15

وہ دل میں اور قریب‌ رگ گلو بھی ملے

وہ دل میں اور قریب‌ رگ گلو بھی ملے
ذرا سا لطف مگر ہم سے روبرو بھی ملے

جو کوئی واقف آداب رنگ و بو بھی ملے
تو اشک خوں میں بوئے زخم آرزو بھی ملے

ہزار زخم کو کیا بے شمار زخم لگے
اسی کے ساتھ مگر فرصت رفو بھی ملے

یہ بت کدہ نہ سہی پھر بھی مے کدہ تو نہیں
یہاں تو ہم کو کئی رند بے وضو بھی ملے

ہمیں تو آرزوئے اذن حاضری ہے بہت
زہے نصیب اگر اذن گفتگو بھی ملے

وہ اس کو کیسے خموشی قرار دے آخر
مرے سکوت میں جب جرم گفتگو بھی ملے

ملے جہاں بھی پیام حیات نو مجھ کو
مزہ تو جب ہے وہیں میرے یار تو بھی ملے

وہ ایک آپ ہی اپنی مثال ہے اخگرؔ
اور آپ جیسے کئی اس کو ہو بہ ہو بھی ملے

حنیف اخگر

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات

نظم