دَرد عُنوان کھا گئے اُن کو
ہاں مِری جان، کھا گئے اُن کو
کُچھ درختوں کی آنکھ لَگتے ہی
تیز طُوفان کھا گئے اُن کو
وہ جو اَرمان تھے مِرے دِل میں
خَوف اَنجان، کھا گئے اُن کو
جو نُمایاں تھیں رَونَقیں رُخ پَر
دِل کے نُقصان کھا گئے اُن کو
اُس نے زَریاب جَب فریب دیئے
تھے پَریشان، کھا گئے اُن کو
ہاجرہ نُور زریاب