جو تیری آنکھ انکاری ہوئی ہے
مجھے کچھ اور بھی پیاری ہوئی ہے
سنا جو ذکر اغیاروں سے تیرا
عجب سی کیفیت طاری ہوئی ہے
تمھارے ساتھ گزری ایک ساعت
ہماری عمر پہ بھاری ہوئی ہے
ندی کا ذائقہ بدلا ہوا ہے
ہمارے اشک سے کھاری ہوئی ہے
تمھاری یاد مرہم بن کے اتری
ہماری سانس جب آری ہوئی ہے
محبت ایک طرفہ بھی غنیمت
روایت یہ نئی جاری ہوئی ہے
خوشی کا بوجھ ہلکا ہے بہت ہی
غموں کی پوٹلی بھاری ہوئی ہے
جو جملوں سے لگائی ہے کسی نے
وہی اک ضرب تو کاری ہوئی ہے
میں روکے سے نہ رک پاوں گی رضیہ
کہ اب چلنے کی تیاری ہوئی ہے
پروفیسر رضیہ سبحان