قرار ملنا نہیں اور گر کہیں پہ مجھے
تو کیوں فلک سے اتارا گیا زمیں پہ مجھے
جہاں جہاں بھی ضرورت تمہارے قرب کی تھی
کمی تمہاری رہی ہے وہیں وہیں پہ مجھے
تو میرا وہم تھا اور میں گمان تھا تیرا
گزارنی ہے حیاتی اسی یقیں پہ مجھے
وہ میری ذات پہ تنقید سے معزز ہے
سو پیار آتا ہے اس اپنے نکتہ چیں پہ مجھے
میں کیوں نہ سجدہ کروں بارگاہ میں تیری
یہ داغ یوں بھی سجانا تو ہے جبیں پہ مجھے
مکان ہوں میں مجھے چھوڑ دے وہ کب جانے
یقین پل کا نہیں ہے رضا مکیں پہ مجھے
یہ تیرا شہر تو مقتل کے جیسا ہے راجا
دکھائی دیتا ہے خوں سب کی آستیں پہ مجھے
احمدرضاراجا