کاش جو جیسا نظر آئے وہ ویسا نکلے
میں جسے اپنا بناؤں میرا اپنا نکلے
ایک اک کر کے بہانے سے مجھے چھوڑ گئے
میرے گنتی کے حواری بڑے دانا نکلے
کم سے کم آب و ہوا کا ہی بھرم رہ جائے
ایک پودا ہی بھرے باغ میں سیدھا نکلے
دشتِ وحشت کے مسافر کی تسلّی ہو جائے
اک ببُولا بھی اگر محملِ لَیلا نکلے
نہ یہاں آب نہ سایہ نہ پنہ گاہ نہ راہ
ہم اک آہُو کے تعاقب میں کہاں آ نکلے
سعید صاحب