زندگی تجھ سے بچھڑ کر میں جیا ایک برس
زہر تنہائی کا ہنس ہنس کے پیا ایک برس
اک اندھیرے کا بھنور تھا مرا ماحول مگر
کام اشکوں سے چراغوں کا لیا ایک برس
کسی آندھی کسی طوفاں سے بجھائے نہ بجھا
دل میں جلتا ہی رہا غم کا دیا ایک برس
پھر کہیں مجھ کو ملا ہے مرے جینے کا صلہ
میں یہاں ہوکے رہا خود سے خفا ایک برس
ایک لمحہ بھی گوارا نہ تھا فرقت کا سروشؔ
یہ بھی کیا کم ہے ترے غم میں جیا ایک برش
رفعت سروش