وہ لُو تھی یا کہ بادِ بہاری، گزر گئی
جیسی بھی زندگی تھی، گزاری ، گزر گئی
پھر دیر تک کلام کیا خامشی سے مٙیں
اسٹیج تک میں پہنچا تو باری ، گزر گئی
اب اپنے اپنے حصے کی ہر شاخ بانٹیے
اب درمیاں سے پیڑ کے آری ، گزر گئی
خود سے بچھڑ کے دن بھی مجھے کاٹنا پڑا
اک شب تھی آسمان سے بھاری ، گزر گئی
دھندلا تھا چشم و چہرہ مرا، اس پہ عمر کی
گرد و غبار اڑاتی سواری، گزر گئی
قیوم طاہر