ہم سے کسی کے بخت کا تارا نہیں ملا
بچھڑا جو ایک بار دوبارہ نہیں ملا
کاغذ کی کشتیوں میں سواری کا شوق تھا
اب یہ شکائتیں ہیں کنارہ نہیں ملا
خوشبو بھی سو رہی ہے ابھی پتیوں کے بیچ
غنچوں کو بھی ہوا کا اشارہ نہیں ملا
چاہا نہیں کسی کو کبھی آپ کی طرح
دنیا میں کوئی آپ سا پیارا نہیں ملا
ہنس ہنس کے طے کئے ہیں جدائی کے راستے
اس کاروبار میں بھی خسارہ نہیں ملا
چپ چپ اداس اداس ہیں پتوں کی پائلیں
شاخوں کو ناچنے کا اشارہ نہیں ملا
جاناں یہیں کہیں انہی لمحوں کی بھیڑ میں
اک خواب کھو گیا تھا ہمارا نہیں ملا
انصر ہمارے وہم و گماں میں نہ تھا کہ تم
یہ کہہ کے چھوڑ دو گے سہارا نہیں ملا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سید انصر