سمندر تھا میں اب صحرا بنا ہوں
عجب اپنا تماشا دیکھتا ہوں
غلط فہمی تری ، محفوظ ہوں میں
تمہیں کیا علم کیسے جی رہا ہوں
ملی تعذیب خود داری پہ کیسی
بھری دنیا میں تنہا رہ گیا ہوں
شعورِ ذات میری مجھ سے نالاں
کسی پتھر کو میں کیوں پوجتا ہوں
بہت نزدیک ہوں اب آسماں کے
میں لمحہ لمحہ پیہم ڈوبتا ہوں
کہوں جو اپنا ماتھا پیٹ لو گے
میں ان آنکھوں سے کیا کیا دیکھتا ہوں
الگ تحریر ہوگا شب کا شیون
ابھی میں دن کا نوحہ لکھ رہا ہوں
تمہیں کیوں فکر لاحق ہو رہی ہے
میں اپنے حوصلوں کو جانتا ہوں
پریشاں میرے جیسا وہ بھی ہوگا
میں خود کو روز دھوکا دے رہا ہوں
زمیں کیوں آسماں سی دکھ رہی ہے
میں شاید اڑتے اڑتے تھک گیا ہوں
در و دیوار ڈوبے سسکیوں میں
گزشتہ شب میں اتنا رو دیا ہوں
تعاقب میں کہاں منظور کوئی
نہیں معلوم میں کیوں بھاگتا ہوں
احمد منظور