دوستوں دشمنوں نے لوٹ لیا
مجھ کو یکساں سبھوں نے لوٹ لیا
آپ کیوں منہ پھلاکے بیٹھے ہیں
یار کن قربتوں نے لوٹ لیا
حسن کے پاسبان بھی ہیں وہی
عشق کو جن ٹھگوں نے لوٹ لیا
وصل کی ساعتیں ترس کھائیں
ہجر کی مدّتوں نے لوٹ لیا
کچھ تھے جلوے ترے تباہی پر
کچھ مجھے خواہشوں نے لوٹ لیا
بے خبر ہے ترا سکون و قرار
مجھ کو کن مشکلوں نے لوٹ لیا
پھر کسی زلف کی طلب نہ رہی
یوں تمہاری لٹوں نے لوٹ لیا
ہائے فریادِ دلبری میری
تیرے بڑھتے گلوں نے لوٹ لیا
اس کے کوچے میں زچ ہوئے منظور
آہ کو قہقہوں نے لوٹ لیا
احمد منظور