غمِ زندگانی سے دامن چھڑا کر
چلا کوٸی اپنی جوانی بِتا کر
جوانی سے بھَرپُور ہیں آجکل وہ
زمانے سے رکھنا ہے اُن کو بچا کر
ہمٸیں رازِ ہستی سے واقف تھے لیکن
کسی نے نہ دیکھا ہَمیں آزما کر
تواتُر سے خوابوں میں آنے لگے ہیں
قرار آیا نہ اُن کو ہم کو بھلا کر
گِرا منہ کے بَل دیکھکر شیخ اُن کو
وہ گُم صُم کھڑے تھے لبِ بام آ کر
اُنہوں نے کسی کو نہیں لُٹتے دیکھا
پتہ چلتا ہے اَپنا سب کچھ لُٹا کر
زمانے نے دھوکے کیٸے سادگی سے
وہ داٸیں کے جھانسے میں بایاں دکھا کر
غزل کے کٸی رنگ دیکھے ہیں ہم نے
عجب رنگ دیکھا ہے اُس کو سُنا کر
سنبھلنا ادب کے منافی ہے کاشف
لبوں سے لگا لو یہاں جام اُٹھا کر