نکاح کا وقت ہوگیا تھا عیان دور سے مولوی صاحب کو ماہشان سے رضامندی لیتے دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔اس کے دل میں خوشی کی لہر سی اٹھی رہی تھی اسے خود کی خوش نصیبی پر حیرت ہو رہی تھی ۔۔۔۔ وہ اک ٹک بس ماہشان کی تمام حرکات کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔
ماہشان نے جیسے ہی قبول ہے کے لۓ سر ہلایا عیان کو ایسا لگا جیسے کسی نے اس کا دل اپنی مٹھی میں لے لیا ہو یہ جزبات اس کے لۓ نۓ تھے
یا اللّٰہ تیرا شکر۔۔۔ اس کے مسکراتے ہونٹوں سے بس اتنا ہی نکلا
۔۔۔۔
مولوی صاحب ماہشان سے اس کی رضامندی پوچھ رہے تھے اور ماہشان کا زہن تو بس اک اک واقعات کو یاد کر رہا تھا کیسے وہ عیان کی گاڑی سے ٹکرائی
عیان سے پہلی ملاقات عیان کا ہاتھ ماہشان کے منہ پر تھا وہ خوفزدہ تھی
عیان کا اسے بچانے آجانا جب وہ بندھی ہوئ تھی ۔۔۔۔اس کی رسی کھولتا عیان اس کی نظروں کے سامنے آگیا
بھیگی آنکھیں لۓ اس سے نکاح کی اجازت مانگتا عیان ۔۔۔ اس دن وہ اس کے درد کو سمجھی تھی وہی دن تھا جب عیان نے اس کے دل میں پہلا قدم رکھا تھا ۔۔۔۔
مسکراتا ہوا عیان۔۔۔۔۔۔ غصے کو ضبط کرتا عیان ۔۔۔۔۔ افسردہ عیان۔۔۔۔۔عیان کا ہر روپ اس کی آنکھوں سے گزر رہا تھا
ہر ملاقات کسی فلم کی طرح اس کے زہن میں چل رہی تھی ۔۔۔۔
کیا آپ کو قبول ہے مولوی صاحب کی آواز سے اس کی سوچ کا تسلسل ٹوٹا۔۔۔۔
اک گہری سانس لیکر اس نے ۔۔۔ قبول ہے کہا اور ہاں میں گردن ہلادی
اک آنسوں اس کی آنکھ سے بہ گیا لیکن آج یہ آنسو غم کا نہیں تھا بلکہ خوشی کا تھا
ماہشان سے رضامندی لینے کے بعد اب سب مسجد روانہ ہوگۓ نکاح کا انتظام قریب کی مسجد میں تھا
تھوڑی ہی دیر میں سب واپس آگۓ
فاطمہ بیگم نے بڑے پیار سے ماہشان اور عیان کو گلے لگایا
عیان اب ماہشان کے برابر میں پورے حق سے بیٹھا تھا ۔۔۔
وہ اس کی منکوحہ تھی اس کی زندگی کی ساتھی ہر غم ہر خوشی کا سہارا تھی۔۔۔۔
ماہشان ۔۔۔ عیان کے برابر میں نروس ہوکر حسب عادت اپنی انگلیاں مڑوڑنے لگی۔،۔ اک تو وہ عیان کے برابر میں اک نۓ رشتے سے بیٹھی تھی اوپر سے سب کی نگاہوں کا مرکز وہ دونوں تھے یہ چیز اسے اور نروس کر رہی تھی ۔۔
عیان کی نظر ماہشان کے مہندی سے بھرے ہاتھوں پر پڑی ماہشان کی کیفیات کو سمجھتا وہ مسکرانے لگا
ارے بہن ان ہاتھوں کو بخش دو۔۔۔ ابھی عیان کچھ کہنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ آمنہ اک دم ان کے پاس آتی بولی
تم کیا میری دوست کو کنفیوژ کر رہے ہو ۔۔۔۔ آمنہ عیان سے ماہشان کے برابر میں بیٹھتے ہوۓ بولی
عیان نے حیرت سے آمنہ کو دیکھا جیسے آنکھوں سے کہ رہا ہو میں کیا کر رہا ہوں۔۔۔۔
مبارک ہو بہت بہت تم دونوں کو اللّٰہ تعالیٰ ڈھیروں خوشیاں دے۔۔۔ آمنہ ان دونوں کا بڑے پیار سے دعا دینے لگیں
چلو تھوڑی دیر کے لۓ جا کر آرام کر لو دونوں پھر شام میں میری اور وسیم کی طرف سے اک سرپرائز ہے آمنہ ماہشان اور عیان کو اٹھاتے ہوۓ بولیں
بھابی آپ دونوں نے پہلے ہی بہت کچھ کیا ہے اس کی کیا ضرورت ہے عیان اپنے پن سے بولا
بس کرو بھئ ۔۔۔ ہمارا دل ہماری مرضی آمنہ بھی ہنستے ہوۓ عیان کو جواب دینے لگی
وسیم کہاں ہے بھابھی ۔۔۔۔ عیان وسیم کو ڈھونڈتے ہوۓ بولا
وہ مہمانوں کو سی آف کر رہے ہیں آنٹی کے ساتھ ہیں وہ دیکھو آگۓ
چلو بھئ اللّٰہ کے کرم سے بہت اچھا ہوگیا آج کا سب کچھ وسیم فاطمہ بیگم سے بات کرتے آرہا تھا
ہاں بیٹا ۔۔۔ بس اب شکرانے کے نوافل ادا کروں گی اللّٰہ نے بہت اچھے سے کروادیا سب کچھ۔۔۔۔فاطمہ بیگم بھی چہرے پر ڈھیروں اطمینان لۓ بولیں
بچوں آپ لوگ بھی جاؤ اوپر آرام کرلو جا کر۔۔۔ سب مہمان تو چلے ہی گۓ ہیں ۔۔
یہی میں کہ رہی تھی ۔۔۔۔۔ چلو اوپر چلو اب ماہشان کا ہاتھ پکڑتی اک ہاتھ سے لہنگا اٹھاتی آمنہ اسے لیکر اوپر چلنے لگی ماہشان بھی آہستہ آہستہ عیان اور آمنہ کے ساتھ اوپر چڑھ رہی تھی ۔۔۔۔ اتنی ہیوی جیولری میں اتنا بھاری لہنگا اسے چلنے میں پہلے ہی دشواری ہو رہی تھی کہ اس کا پیر اک دم لڑکھڑایا ابھی وہ گرنے ہی لگی تھی کہ عیان نے کس کر اس کا ہاتھ تھام لیا
سنبھل کر ۔۔۔۔عیان کے منہ سے بس اتنا نکلا۔۔۔
ماہشان عیان کے ہاتھوں کا لمس محسوس کرتی اک پل کے لۓ گھبرا گئ تھی لیکن اگلے ہی لمحے خد کو پر سکون کرتی وہ آہستہ آہستہ اوپر چڑھنے لگی بالآخر اس کا کمرہ آگیا آمنہ اسے اندر بٹھاتی کمرے سے چلی گئ
تم لوگ کہاں جا رہے ہو ابھی رکو شام کی چاۓ پی کر جانا۔۔۔فاطمہ بیگم وسیم اور آمنہ کو جاتا دیکھ اک دم انہیں روکنے لگیں
سنبل جو انہیں جاتا دیکھ دل ہی دل میں سکون میں آرہی تھی اک دم چڑ گئ۔۔۔ جانے دیں نہ چاچی۔۔۔۔ زرا آپکو میری فکر نہیں کہ میں یہاں دو دن سے بند ہوں کیا ضرورت تھی کسی کو گھر میں یوں روکنے کی لیکن آپ لوگوں کو میری کوئ فکر ہو تب نہ اب وہ جا رہی ہے تو بھی اسے جانے نہیں دے رہیں سنبل دل ہی دل میں فاطمہ بیگم پر اپنا غصہ نکالنے لگی
نہیں آنٹی ابھی تو ہم گھر جائیں گے پھر شام کی بھی تیاری کرنی ہے اب چلنا ہوگا دوبارہ آجائیں گے وسیم کا پتا نہیں پر اب میں تو آپ کو یہیں ملوں گی آمنہ خوش دلی سے فاطمہ بیگم سے باتیں کر رہی تھی
لیکن فاطمہ بیگم اور آمنہ کو یوں مسکراتا دیکھ سنبل دل ہی دل میں جل رہی تھی
جس عورت کے بھائ نے میرے ساتھ یہ سب کیا آپ اس سے ایسے کیسے بات کر سکتی ہیں بس یہی تھا آپ کا پیار آپکا اپنا پن سنبل فاطمہ بیگم کو لیکر بے حد بد ظن ہورہی تھی
چلو بیٹا ٹھیک ہے اپنا دھیان رکھنا اور زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے شام میں فاطمہ بیگم آمنہ کو گلے لگاتے بولیں
ٹھیک ہے آنٹی چلیں اللّٰہ حافظ آمنہ یہ کہتی گھر سے چلی گئ
آمنہ کے جاتے ہی سنبل نے سکون کا سانس لیا چہرے پر جھوٹی مسکان سجاۓ کمرے سے باہر نکل آئ
مبارک ہو چاچی آپکو بہت بہت ۔۔۔یہ کہتی وہ فاطمہ بیگم کے گلے لگ گئ کچھ دیر پہلے کے تاثرات تو دور دور تک اس کے چہرے پر کہیں نہیں تھے
فاطمہ بیگم سے الگ ہوتی وہ اوپر کی سیڑھیاں چڑھنے لگی
کہاں جا رہی ہو آپ بچے ۔۔۔۔ فاطمہ بیگم سنبل کو اوپر چڑھتا دیکھ کر بولیں
عیان اور ماہشان کو مبارک باد دینے سنبل چہرے کو معصوم بناتے ہوئے بولی
بیٹا ابھی رہنے دو شام میں کر لینا جو کرنا ہے ابھی وہ دونوں تھوڑا آرام کرلیں ماہشان تو صبح سے بیٹھی ہوئ تھی اوپر سے اتنا ہیوی ڈریس اور جیولری پہنی تو بہت تھک گئ تھی وہ۔۔۔۔
ابھی ڈسٹرب نہ کرو تو اچھا ہے تھوڑی ہی دیر میں آجائیں گے پھر مل لینا۔۔۔۔فاطمہ بیگم یہ کہتی سیدھا اپنے کمرے میں چلی گئیں
میں کونسا مری جا رہی ہوں ان سے ملنے کے لۓ ۔۔۔۔ سکون تو ان دونوں کو میں لینے نہیں دوں گی جب سنبل خوش نہیں تو کسی کو کوئ حق نہیں ہے خوش رہنے کا۔۔۔۔ اک شیطانی ہنسی ہنستی وہ اپنے کمرے میں چلی گئ۔۔۔۔۔
************************
عیان کی موجودگی کمرے میں محسوس کرتی وہ بظاہر سکون سے اک جگہ بیٹھی تھی لیکن اندر اس کے عجیب ہلچل مچی ہوئ تھی
ادھر عیان کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا بات کرے کون سے الفاظ چنے ۔۔۔۔ وہ جو ہر اک کو اپنی پرسنیلٹی سے رعب میں رکھتا تھا جس کے غصے سے ہر کوئ ڈرتا تھا وہ یوں اک معصوم سی لڑکی کے سامنے بولنے کے لۓ الفاظ ڈھونڈ رہا تھا۔۔۔۔۔
عیان کو یوں ٹہلتا دیکھ ماہشان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر گئ
آپ بیٹھ جائیں ۔۔۔عیان کی حالت پر ترس کھاتے ماہشان نے ہی بولنے میں پہل کردی
ماہشان کی آواز سن کر عیان نے اک دم رک کر ماہشان کو دیکھا ابھی وہ اسی کیفیت میں ماہشان کو دیکھ رہا تھا کہ دروازے پر ناک ہوئ
عیان نے دروازہ کھولا سامنے ماریہ چاۓ کے دو کپ لۓ کھڑی تھی شکریہ ماریہ کہتے اس نے ماریہ سے چاۓ لی اور ماہشان کے سامنے آکر بیٹھ گیا۔۔۔۔
تھک گئ ہوں گی آپ۔۔۔۔ چاۓ کا کپ اس کی طرف بڑھاتے عیان نرم لہجے میں بولا
اک منٹ کہ کر کپ واپس رکھتے اس نے گھونگھٹ اٹھایا۔۔۔ اس کے ساتھ تو پینا مشکل ہوگا بہت۔۔۔۔ عیان مسکراتے ہوۓ بولا
ماشاءاللہ ۔۔۔۔ گھونگھٹ اوپر کرتے عیان کے منہ سے نکلا۔۔۔
ماہشان تو اک دم شرما سی گئ۔۔۔۔۔انگلیاں پھر سے حسب عادت مڑوڑنے لگی ۔۔۔۔
عیان اس کے ہاتھ دیکھ کر مسکرانے لگا۔۔۔۔۔۔
چاۓ ۔۔۔۔ چاۓ کا کپ آگے بڑھاتے وہ اس کی توجہ چاۓ کی جانب کرنے لگا
آج آپ کو پہلی بار دیکھا ہے میں نے ۔۔۔آپ واقع بہت خوبصورت ہیں عیان نے بات کا آغاز اس کی تعریف سے کیا۔۔۔۔کیا میک اپ کے بغیر بھی پ اتنی ہی خوبصورت ہیں یا یہ میک اپ کا کمال ہے عیان بس ماہشان کو کمفرٹیبل فیل کرانا چاہتا تھا
ماہشان نے بڑی بڑی آنکھیں اور بڑی کرتے عیان کو دیکھا۔۔۔۔۔
اچھا اچھا اب ایسے بھی نہ دیکھیں ۔۔۔۔۔عیان پھر سے مسکراتے ہوۓ بولا
ماہشان نے پلکیں واپس جھکا لیں۔۔۔۔۔
سائڈ ٹیبل کی دراز سے اک باکس نکال کر عیان نے ماہشان کو دیا یہ آپکی منہ دکھائی
ماہشان نے وہ باکس لیکر اپنے پاس رکھ لیا
دیکھیں گی نہیں عیان اس بار بہت پیار سے بولا۔۔۔۔
عیان کے کہنے پر اس نے گفٹ باکس کھولا ۔۔۔ اس کے اندر اک بہت قیمتی ڈائمنڈ نیکلس تھا
بہت خوبصورت ہے ماہشان نے عیان کی طرف دیکھتے ہوۓ بولا
یہی تو میں بھی کہ رہا ہوں کہ بہت خوبصورت ہے ۔۔۔۔۔اور چاۓ کا سپ لینے لگا
ماہشان کی پلکیں پھر سے جھک گئیں ۔۔۔۔
چاۓ تو پی لیں ٹھنڈی ہو رہی ہے۔۔۔۔عیان کے کہتے ہی ماہشان نے چاۓ کا کپ اٹھایا اور پینے لگی ۔۔۔
چاۓ پیتے اسے نتھ سے مشکل ہورہی تھی بار بار وہ نتھ ہٹاتی بار بار نتھ آگے آجاتی عیان یہ دیکھتا اک دم آگے ہوا اور نتھ کھول دی ۔۔۔۔۔
ماہشان یوں عیان کے آگے آنے پر اک دم گھبرا گئ
گھبرائیں نہیں آپکی مشکل آسان کر رہا ہوں عیان مسکراتے ہوۓ بولا
چلیں اب آرام سے پی لیں۔۔۔۔۔
شکریہ۔۔۔۔۔ ماہشان چاۓ کا کپ رکھتے ہوۓ بولی
کس لۓ ۔۔۔۔ عیان کو حیرت ہوئ کہ اتنے سے کام پر کیا شکریہ
ہمیشہ میری مدد کرنے کے لۓ۔۔۔۔ مجھ پر بھروسہ کرنے کے لۓ۔۔۔۔۔۔میری زندگی میں خوشیاں لانے کے کۓ یہ کہتے ماہشان کی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے
ارے کیا کر رہی ہیں روئیں تو مت ۔۔۔۔۔ عیان ماہشان کا ہاتھ بڑے پیار سے اپنے ہاتھ میں لیتے ہوۓ بولا
دیکھیں میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا ہے آپ کو کیا پتا آپنے میرے لۓ کیا کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ تو چلیں یہ آنسوں فورا پونچ لیں اگر چاہیں تو جا کر چینج کرلیں یہ سب آپکو اور تھکا رہا ہوگا
ماہشان ہاں میں سر ہلاتی اٹھ کر فریش ہونے چلی گئ۔۔۔۔
تھوڑی ہی دیر میں جب وہ باہر آئ تو عیان بیڈ پر ٹیک لگاۓ بیٹھے بیٹھے سو رہا تھا ماہشان اس کو ایسے دیکھ کر ہنس دی ۔۔۔اور آکر بیڈ پر بیٹھ گئ وہ اسی کو اک ٹک دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔۔ اس نے بھی عیان کو آج ہی پہلی بار اس طرح دیکھا تھا ورنہ اتنے غور سے تو اسنے بھی کہاں اسے دیکھا تھا آپ بھی بہت خوبصورت ہیں ۔۔۔وہ زیر لب بولی اتنی آہستہ کے مشکل ہی تھا کہ کسی تک آواز جاتی۔۔۔۔
شکریہ عیان اک دن آنکھیں کھولتا ہوا بولا۔۔۔۔
ماہشان تو اک دم شرمندہ ہوگئ اسے خد کے الفاظوں پر اب عجیب لگ رہا تھا
مجھے لگا آپ سو رہے ہیں ماہشان اپنے مہندی سے بھرے ہاتھوں کو دیکھتے ہوۓ بولی۔۔۔۔
تو کیا ہوا اگر جاگ رہا ہوں شوہر ہوں اب آپکا تھوڑی تعریف کا تو حقدار ہوں۔۔۔۔ عیان پھر سے مسکراتے ہوۓ بولا
عیان کی نگاہ ماہشان کے بالوں پر پڑی آج اس نے اسے یوں دیکھا تھا آج سے پہلے جب اس نے اس کو بالوں کے ساتھ دیکھا تھا تب وہ خون میں لت پت تھی۔۔۔۔
آپ جانتی ہیں جب آپ کو میں نے پہلی بار دیکھا تھا تو تب بھی آپ کے چہرے سے میرے لۓ نظر ہٹانا بہت مشکل تھا۔۔۔۔ حالانکہ آپ زخمی تھیں ۔۔۔۔ خود کو میں نے بہت بار روکنا چاہا لیکن یہ میرے بس سے باہر تھا جیسے کوئ کشش ہو جو مجھے آپ کی طرف کھینچ رہی ہو اب جا کر معلوم ہوا آپ میری ہمسفر تھیں وہ تھیں جسے اللّٰہ نے میرے لۓ چنا تھا شاید دل کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا یا شاید روح نے محسوس کرلیا تھا عیان بیڈ سے ٹیک لگاۓ آہستہ آہستہ اپنے دل کی باتیں اسے بتانے لگا۔۔
ماہشان کا دل تو جیسے قابو میں ہی نہیں آرہا تھا
آپ ویسے بنا میک اپ بھی بہت خوبصورت ہیں عیان سیدھا ہوتا اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا ۔۔۔۔
چلیں تھوڑی دیر آرام کرلیں آج کے لۓ اتنا شرمانا بہت ہے عیان مسکراتا ہوا تکیہ پر لیٹ گیا اور آنکھیں بند کرلیں
ماہشان بھی آہستہ سے آکر لیٹ گئ تھوڑی ہی دیر میں اس کی آنکھ لگ گئ ۔۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔