Rakha Nahi Gurbat nay kabhi apna bharam bhi
غزل
رکھا نہیں غربت نے کسی اک کا بھرم بھی
مے خانہ بھی ویراں ہے کلیسا بھی حرم بھی
لوٹا ہے زمانے نے مرا بیش بھی کم بھی
چھینا تھا تجھے چھین لیا ہے ترا غم بھی
بے آب ہوا اب تو مرا دیدۂ نم بھی
اے گردش عالم تو کسی موڑ پہ تھم بھی
سن اے بت جاندار بت سیمبر اے سن
توڑے نہ گئے ہم سے تو پتھر کے صنم بھی
میں وصل کی بھی کر نہ سکا شدت غم کم
آیا نہ کسی کام ترے ہجر کا سم بھی
دیوار سکوں بیٹھ گئی شدت نم سے
برسا ہے مرے گھر پہ اگر ابر کرم بھی
تنہائی نہ پوچھ اپنی کہ ساتھ اہل جنوں کے
چلتے ہیں فقط چند قدم راہ کے خم بھی
صحرائے غم جاں میں بگولوں سے بچا کون
مٹ جائیں گے اے دوست ترے نقش قدم بھی
سنتے ہیں چمکتا ہے وہ چاند اب بھی سر بام
حسرت ہے کہ بس ایک نظر دیکھ لیں ہم بھی
ظہور نظر
Zahoor Nazar