Awara Hawaoo say Patta Maang Raha Hay
غزل
آوارہ ہواؤں کا پتہ مانگ رہا ہے
ناداں ہے وفاؤں کا صلہ مانگ رہا ہے
جب سے یہ سنا ہے کہ ترے در پہ ملے سب
اس آس پہ تب سےہی گدا مانگ رہا ہے
جی بھر کے وہ جب کھیل چکا دل سے ہمارے
تب اور کسی سے وہ وفا مانگ رہا ہے
ناداں ہے خدایا ہے خطا کار یہ بندہ
کر کے جو خطا تجھ سے جزا مانگ رہا ہے
راحت ہی ملے تم کو زمانے میں ہمیشہ
اپنوں کے لئے دل یہ دعا مانگ رہا ہے
دنیا میں مسلط ہو کسی پر نہ کبھی غم
دل سب کے لیے رب کی عطا مانگ رہا ہے
احسان کبھی ہم پہ کیا تھا جو کسی نے
وہ شخص بھی ریحانہ ، صلہ مانگ رہا ہے
ریحانہ اعجاز
Rehana Aijaz