Door Reh bhi Na sakoon Paas Bula bhi Na sakoon
غزل
دور رہ بھی نہ سکوں پاس بلا بھی نہ سکوں
تو وہ اپنا ہے جسے اپنا بنا بھی نہ سکوں
اے مسیحا کوئی تدبیر مسیحائی کی کر
زخم ایسا ہے کہ ہر اک کو دکھا بھی نہ سکوں
حسن کی اور تب و تاب بڑھا دیتا ہے
میں تو اس تل کا کبھی مول چکا بھی نہ سکوں
عمر کے آخری نکڑ پہ ملاقات کا دکھ
یوں ملا ہے کہ ترے ناز اٹھا بھی نہ سکوں
اس قدر تلخ رویہ تو مرے ساتھ نہ رکھ
زندگی میں تجھے سینے سے لگا بھی نہ سکوں
وہ تعلق کو عجب موڑ پہ لے آیا ہے
ساتھ چل بھی نہ سکوں چھوڑ کے جا بھی نہ سکوں
سلیم فوز
Saleem Fauz