Bharam to aaj Kissi Tarah anjuman Main Rahay
غزل
بھرم تو آج کسی طرح انجمن میں رہے
تری نگاہ کا جادو مرے سخن میں رہے
نہیں ہے ضبط دل نا صبور ! تو ہر آہ
نکل کےآئے بھی لیکن صدا دہن میں رہے
رہیں جو ساتھ تو اللّہ واسطے کا بیر..
الگ رہیں جو اگرفکر دل شکن میں رہے
سکون کو یہی کافی ہے موسم گل میں
ملی بھی قید قفس تواسی چمن میں رہے
غذا سے مجھ کو تعیّش ذرا نہیں مطلوب
بجز کہ رشتۂ مضبوط جان و تن میں رہے
کہیں ہیں قیمتی پردے دروں پہ آویزاں
کہیں کہیں کئ پیوند پیرہن میں رہے
حصول دولت دنیا میں تادم آخر
رہا کہ جیب نہ خالی کوئ کفن میں رہے
وہ حیف وار کریں پشت سے نہتّوں پر
شمارجنکےبزرگوں کاصف شکن میں رہے
سمیٹتےرہے جی بھر کےخوشبوۓ ماضی
رضیّہ جتنےدنوں اب کےہم وطن میں رہے
رضیہ کاظمی
Razia Kazmi