tukham dooran main mahbat ka samaan kaisa hay
غزل
تخم دوراں میں محبت کا سماں کیسا ہے
موت کی راہ پہ جیون کا نشاں کیسا ہے
کیسے برفاب خرد تیرے پگھلنے کے لیے
سرد ذہنوں میں کہیں شعلہ بیاں کیسا ہے
ہر بلندی ہوئی مشروط زبوں حالی سے
ایسی تخریب میں تعمیر جہاں کیسا ہے
عشق میں دار و رسن راہ بقا کی ضد ہے
تیری چاہت میں بھلا سود و زیاں کیسا ہے
چشمِ حیرت میں رہے قید مناظر سارے
اور پتلی میں بھی رنگوں کا جہاں کیسا ہے
میں نے تو خار اٹھائے تھے سدا رستوں سے
میری منزل پہ مگر اندھا کنواں کیسا ہے
میں وضع دار نبھاتا رہا الفت کا بھرم
تم نے پوچھا بھی نہ آہوں میں دھواں کیسا ہے
اتنے کھائے ہیں یہاں جھوٹے خداؤں سے فریب
ہم سے پوچھو تو ذرا کوئے بتاں کیسا ہے
اس جفا کیش نے دیکھا مرا کم زور بدن
یہ نہ دیکھا کہ مرا عزم جواں کیسا ہے
میں نے چہرے پہ سجایا ہے تبسم یارو
کوئی دیکھے نہ مرا زخم نہاں کیسا ہے
سب تلفّظ پہ تھے ناقد سر محفل تابشِ
یہ نہ بولے کہ مرا نطق بیاں کیسا ہے
شہزاد تابشِ
Shahzad Tabish