Mahbatoo kay safar Raieegan Nahi hoty
غزل
محبتوں کے سفر رائیگاں نہیں ہوتے
جو ساتھ چلتے ہوئے بدگماں نہیں ہوتے
اسی جہان میں جیتے ہیں زندگی اپنی
وہ جن کے سر پہ کبھی آسماں نہیں ہوتے
سفر سے پہلے ذرا سوچ لے پری پیکر
کہ راہ عشق میں منزل نشاں نہیں ہوتے
مرا وجود بکھرتا نہ آئینے کی طرح
جو پتھروں کے نگر درمیاں نہیں ہوتے
یہی سوال ہے الفت کے دیوتا سے مرا
وفا کی راہ میں کانٹے کہاں نہیں ہوتے
ہر اک وجود کی نسبت ہے خاکدانوں سے
نہیں جو آپ تو ہم بھی یہاں نہیں ہوتے
کروں تو کیسے میں تفسیر غم کے ماروں کی
کچھ ایسےدکھ ہیں جومجھ سے بیاں نہیں ہوتے
ہے پنچھیوں سے لگاوٹ اسی لیے تابشِ
کہیں بھی میری طرح سے مکاں نہیں ہوتے
شہزاد تابشِ
Shazad Tabish