Khoobsurat Zindagani Ho rahi Hay
غزل
خوبصورت زندگانی ہو رہی ہے
دل کے اندر گل فشانی ہو رہی ہے
فصل_گل ہے پھر چمن میں پھیلی خوشبو
پھر مرتب اک کہانی ہو رہی ہے
سارا دن ہم تھے سمندر کے کنارے
رات بھی کتنی سہانی ہو رہی ہے
چل رہی ہیں آخری سانسیں ہماری
اب محبت جاودانی ہو رہی ہے
کہہ رہے ہیں مل نہ پائیں گے کبھی پھر
ان کی ہم پر مہربانی ہو رہی ہے
اک غزل پھر آ رہی ہے یوں مچلتی
پھر گماں میں ضو فشانی ہو رہی ہے
ہاتھ پائوں جلد ہی تھکنے لگے ہیں
ختم جیسے اب جوانی ہو رہی ہے
بس سند کوئی نہیں ہے پاس ان کے
بات ساری منہ زبانی ہو رہی ہے
ہو گئی مدت بشر کو اس زمیں پر
داستاں ثاقب پرانی ہو رہی ہے
رانا افتخار احمد ثاقب
Rana Iftikhar Ahmed saqib