NigahooN Kay Aagay Dhowaan hi Dhowaan Hay
غزل
نگاہوں کے آگے دھواں ہی دھواں ہے
حقیقت بھی سچ میں فریبِ گماں ہے
بشر کی حیاتی میں رکھا ہی کیا ہے
حیاتِ بشر تو زیاں ہی زیاں ہے
مقیّد زماں میں ہر اک آدمی ہے
زماں ہی کی حرکت سے قائم مکاں ہے
تھی آدم میں حوّا تھے مریم میں عیسٰی
ہر اک جنس میں جنس دوجا نہاں ہے
خیالوں کی دنیا میں سرعت ہے کتنی
گھڑی بھر میں بندہ کہاں تھا کہاں ہے
وجودی شہودی مباحث الگ ہیں
خدا کیوں ہے کیا ہے الگ داستاں ہے
ہے لفظوں کی دنیا میں ابہامِ معنی
محل شیش جیسا یہ لُغوی جہاں ہے
(شاہ فہد)
Shah Fahad