Baat jo Mukhtasar Nahi Karta
غزل
بات جو مختصر نہیں کرتا
اس کا لہجہ اثر نہیں کرتا
مجھ کو معلوم ہے خفا ہوگا
بات میں جان کر نہیں کرتا
وہ کبھی عشق کر نہ پائے گا
خود کو جو در بدر نہیں کرتا
جانتی ہے تبھی بلاتی ہے۔
رات کو میں سفر نہیں کرتا
عشق کیسے کھلے گا اس پر جو
اپنے اندر سفر نہیں کرتا
شعر کہتا ہوں اس کا مطلب ہے
مجھ پہ جادو اثر نہیں کرتا
پیر صاحب مجھے محبت ہے
آپ کا دم اثر نہیں کرتا
ہم سفر میرا سایہ ہے آصف
یہ اگر اور مگر نہیں کرتا
سید آصف نقوی
Syed Asif Naqvi