ہمیں اس نے کہیں کا بھی نہ رکھا
تخصص نے کہیں کا بھی نہ رکھا
ہواؤں کو کہاں ہم مانتے تھے
تنفس نے کہیں کا بھی نہ رکھا
بڑی نعمت تھی کم علمی ہماری
تجسس نے کہیں کا بھی نہ رکھا
تسلسل ہجرتوں کا کہہ رہا ہے
توا ر ث نے کہیں کا بھی نہ رکھا
ھمارے زخم چھپ سکتے تھے لیکن
تشخص نے کہیں کا بھی نہ رکھا
بزرگی وجہ _ تنہائی بنی ہے
تقدس نے کہیں کا بھی نہ رکھا
نہ تھے مقبول رسوا آپ لیکن
تخلص نے کہیں کا بھی نہ رکھا
مقبول زیدی