ہے بچّوں والی کنواری جناب تھوڑی ہے۔۔
گُلاب تو ہے پہ تازہ گلاب تھوڑی ہے۔۔
ہے پردہ داری کرونا کی مہربانی سے۔۔
یہ ماسک چہرے پہ بُدّھو! نقاب تھوڑی ہے۔۔
جو بوتل آپ نے پکڑی ہے میری گاڑی سے۔۔
ہے اس میں شہد مری جاں! شراب تھوڑی ہے۔۔
کہوں میں کام تو آنکھیں دِکھانے لگتی ہے۔۔
مجھے وہ کام سے دیتی جواب تھوڑی ہے۔۔
ہُوا ہے پیار میں پاگل تو یہ دماغ مرا۔۔
خراب ہے مگر اتنا خراب تھوڑی ہے۔۔
ہمیشہ باپ ہی رہتا ہے ساتھ ساتھ اس کے۔۔
بغیر ہڈّی کے آذر کباب تھوڑی ہے۔۔
ندیم آذر