Naam Lay kar sar e mehfil wo pukaray mujh ko
نام لے کر سرِ محفل وہ پکارے مجھ کو
پھر اسے حق ہے میاں جان سے مارے مجھ کو
جس نے رکھا ہے بھرم عشق کا وہ چاہے تو
سوئی کے ناکے سے جس طور گزارے مجھ کو
سانس تک لینے کو دنیا ترے اس آنگن میں
دیکھنے پڑتے ہیں اب دن میں بھی تارے مجھ کو
دیکھنا یہ ہے کہ اس بار بنامِ ہجرت
لے کے جاتے ہیں کہاں دل کے خسارے مجھ کو
مجھ کو معلوم ہے کرلو اسے تحریر کہیں
قتل کر دیں گے یہی جان کے پیارے مجھ کو
دو قدم لے کے چلے سانس میاں پھول گئی
آخری وقت ملے ایسے سہارے مجھ کو
میں نے تنہائی کو تصویر کیا درد لکھا
پھر سمجھ آئے مقدر کے ستارے مجھ کو
میرے پیروں میں تھی زنجیر کسی وعدے کی
اس لیے لگنا پڑا خود ہی کنارے مجھ کو
کاش اس روزنِ تقدیر سے آ جائے کوئی
اپنی پلکوں سے چنے اور سنوارے مجھ کو
جس نے بھی موجِ نسیمی پہ کیا دل سے یقیں
ہے دعا قبر میں وہ شخص اتارے مجھ کو
نسیم شیخ
Naseem Shaikh