23/02/2025 18:10

پردیسی افسانہ شاز ملک

افسانہ

پردیسی

افسانہ نگار شاز ملک فرانس

دل میں اتر کر لوگ دل سے کیوں اتر جاتے ہیں یارا ؟۔۔۔۔۔حارث نے منان سے اداسی سے پوچھا تو وہ اس کی طرف چونک کر دیکھنے لگا ۔۔۔ اسکا دوست حارث من کے اندر کی شکست و ریخت سے گھبرا سا گیا تھا ۔ فرانس کے مشہورخوشبوؤں کے شہر پیرس کی معروف جگہ ایفل ٹاور کی رنگین گہما گہمی کے عالم میں بیٹھے ہوۓ حارث سے ایسے سوال کی منان کو توقع نہیں تھی جہاں حسن خوشبو رنگ و بو کا سیلاب چاروں طرف امنڈا ہوا تھا ۔۔۔ حارث کی منگیتر کی آج شادی تھی جس سے وہ شادی کا وعدہ کر کے چار سال نوکری کی تلاش میں دھکے کھانے کے بعد اپنے دوست منان کے کہنے پر بڑی مشکلوں سے دو سال سے پردیس کی خاک چھاننے چلا آیا تھا ۔۔ گو اسے اس رنگین شہر میں رنگ کرنے کا کام مزدوری کے طور پر آسانی سے مل گیا تھا مگر ابھی تک وہ اس رنگین شہر کی رنگینیوں سے دل کو آباد نہیں کر پایا تھا اس عالم میں منان اسکا دل بہلانے کے لئیے اسے ایفل ٹاور جیسی بارونق جگہ لے آیا تھا جہاں خوبصورت فواروں کے پاس بیٹھ کر بھی حارث کا دل بے آب و گیاہ بنجر اور ویران تھا ۔۔ حارث پھر اداسی سے کہنے لگا محبت کی زمین پر ہجر کے کانٹے بکھرے ہوتے ہیں دل کے پاؤں میں گر ایک بار چبھ جائیں تو پھر درد کا احساس عمر بھر کے لئیے روح میں اتر جاتا ہے ۔۔۔ ہجر کے کانٹے منان نے سوالیہ انداز میں استفسار کیا تو وہ ٹھنڈی آہ بھر کر بولا ۔۔ ہجر کے سمندر میں اتر کر ہجر کے بارے دریافت کرتے ہو یارا ؟؟ یار ہم جیسے پردیسی لوگ بھی کیا ہیں جن کا تن پردیس میں ہوتا ہے اور من دیس میں ۔۔ وہ پراۓ دیس میں بھیس بدل بھی لیں نا تب بھی پہچانے جاتے ہیں کہ یہ پردیسی ہیں ۔ یہ دیس کی محبت بھی عجیب ہوتی ہے ۔۔ اپنی مٹی سے بچھڑ کر کوئی اور مٹی بھاتی ہی نہیں۔۔…وہ پاس سے گزرتی بے باک حسین مٹی کی مورتیوں کو بے رغبتی اور خالی نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولا ۔۔۔ہم اپنے ماں باپ بہن بھائیوں اپنی من پسند چاہتوں کو دیس میں چھوڑ کر پردیس آ جاتے ہیں ۔۔پیسہ کمانے کی دھن ذمے داریوں کا بوجھ خود پر لادے ہوۓ ہم پردیس کی مشقت کی چکی پیستے پیستے ضرورتوں کی بھیڑمیں گم ہو کر خود سے بچھڑتے چلے جاتے ہیں اور پھر سب کچھ بدل جاتا ہے ۔۔منان نے اسکی بات کی سچائی کو تسلیم کرتے ہوۓ ٹھنڈی سانس بھر کر کہا ۔۔ ہاں یار ایسا ہی ہے ۔۔ منان اٹھتے ہوۓ بولا چلو یار گھر چلتے ہیں ۔۔ گھر ۔۔ حارث کھوئی کھوئی آواز میں بولا گھر ۔۔۔ چھوٹے سے دو کمرے کے کرائے کے گھر میں آٹھ لڑکے رہتے تھے سب کے اپنے مسائل سب پیسے بچانے اور پیسے گھروں میں بھجنے کے چکروں میں الجھے ۔۔ اپنے اپنے مسائل کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوۓ گھروں سے باہر موبائل ہاتھوں میں پکڑے اپنے مسائل سے لڑتے نظر آتے ہیں ۔۔ حارث سوچتے ہوۓ اٹھا اور چپ چاپ منان کے ساتھ چلنے لگا ۔۔۔اس نے ۔کئی لڑکے دھاڑیں مار کر روتے دیکھے اور کئیوں کو چپ چاپ روتے دیکھا ۔۔ وہ خود بھی کئی بار کئی راتیں کمبل اوڑھ کر بے آواز روتا رہا مگر مسائل اور ذمے داریوں کے بوجھ نے اسے پردیس کی مشقت کا بوجھ اٹھانے پر مجبور رکھا ۔۔۔ چھ سال سے لیگل پیپرز بنانے کے چکروں میں خوار ہونے کے بعد آخر کار اسے پیپرز مل گئے۔۔ وہ پاکستان اپنے دیس جانا چاہتا مگر ہر بار اسے یہی سننے کو ملتا بیٹا ابھی بہنوں کی شادی کر لو پیسوں کی ضرورت ہے ۔۔گھر کی ٹوٹ پھوٹ ٹھیک کروانی ہے ۔ پیسے چاہئیے ۔۔۔تمہارا رشتہ بھی تو کرنا ہے اچھی جگہ لڑکی ڈھونڈہ رہے ہیں ۔ اچھا ہے تھوڑے پیسے بچا لو اور پھر شادی دھوم دھام سے کریں گے ۔۔۔ وہ خاموشی سے ان ساری توضیحات کو مان لیتا اور وہ چارو نا چار اپنی خواہش کو سینے میں دفنا دیتا اور مزید ہیسے کمانے اور گھر کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں لگ جاتا ۔۔۔ اپنوں کی خواہشات پوری کرنے کے لئیے وہ اپنا آپ مارتا رہا ۔۔ مگر خواہشوں کے گہرے کنوئیں اسکی محنت کی کمائی سے بھی بھرنے میں ناکام ہو رہے تھے ۔ منان ۔۔ حارث نے منان سے سنجیدگی سے کہا ۔۔ میں واپس جانا چاہتا ہوں سات سال ہو گئے ہفتے کے آٹھوں دن مشقت کر کر کے تھک سا گیا ہوں ۔۔۔دونوں کھانا کھانے چھوٹے سے مقامی چکن پوائینٹ پر اکھٹے ہوۓ تھے ۔۔ آج حارث خوش لگ رہا تھا ۔۔کیونکہ وہ آج پاکستان جانے کے لئیے ٹکٹ کی بکنگ کروا کے آیا تھا ۔۔۔۔اپنے دیرینہ دوست منان سے اپنی خوشی بانٹتے ہوۓ کہہ رہا تھا ۔۔تم تو جانتے ہو یارا ۔۔ماں کی وفات پر بھی نہ جا سکا ۔۔ اب بھائیوں کو جو پیسے بھیجے ہیں سانجھا کاروبار بھی سیٹ کر لیا ہے چھوٹے بھائیوں نے ۔۔ تھوڑا آرام کروں گا ۔۔پھر قدرے شرماتے ہوۓ بولا شادی بھی کر لوں گا ۔۔آج شام بھائیوں کو آنے کی اطلاع دوں گا وہ خوشی سے منان کو بتا رہا تھا ۔۔منان بھی اس کی خوشی میں خوش ہو رہا تھا مگر ۔منان کے دل میں کئی خدشے بھی سر اٹھا رہے تھے منان اپنے دوست حارث کی خوشی میں خوش ہو تے ہوۓ دعا کر رہا تھا کہ اسکے خدشے غلط ثابت ہوں ۔۔۔آخر دونوں گھر جانے کے لئیے اٹھے تو حارث نے بے اختیار منان کو گلے لگا لیا اور رندھی ہوئی آواز میں بولا یارا تیرے بڑے احسانات ہیں مجھ پر جنہیں چاہُکر بھی نہیں چکا سکتا ۔۔ منان اسے گلے ملکر پھر اسکی طرف دیکھتے ہوۓ بولا ایسے نہیں کہتے یارا دوست ہو تم میرے ۔۔ دوستوں سے وفا کی جاتی ہے دغا نہیں کیسے تمہیں پردیس میں اکیلا چھوڑ سکتا تھا ۔۔ دعا کرتا ہوں تم جیسا چاہتے ہو ویسا ہی ہو ۔۔ حارث اسکی طرف دیکھ کر مسکرا دیا اور دونوں مسکراتے ہوۓ باہر نکل گئے ۔۔۔ کیا ۔۔ ابھی نہ آؤں مگر کیوں حارث کے منہ سے بے اختیار نکلا تو اسکا چھوٹا بھائی بولا بھائی کام ڈاؤن ہو چکے ہیں اسٹور جو بنایا تھا بیچنے پر لگا دیا ہے اور قرضہ چڑھ گیا وہ کون اتارے گا آپ نے ہی یہ سب کرنا ہے ۔۔ مگر تم لوگوں نے مجھے بتایا بھی نہیں کہتے رہے ہو سب ٹھیک اچھا چل رہا ہے حارثچچیخ کر بولا تو چھوٹا بھائی بدتمیزی سے بولا حارث بھائی آپکا اس کاروبار میں کوئی حصہ نہیں ہمارے نام ہے کام محنت ہم کریں اور فائدہ اٹھانے آپ آ جائیں ۔۔رہی گھر کی بات تو اماں کے مرنے سے پہلے ہم نے گھر اپنے نام کروا لیا تھا آپ نے آنا ہے تو اپنے گھر کا بندوبست خود کر لیجئے گا حارث چیخ کر بولا کیا اس کے کے قدم لڑکھڑا گئے وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اسکی برسوں کی کمائی یوں ڈوب جائے گی اور بھائی اسے یوں کنگال کر دیں گے ۔۔ گھبراہٹ سے اسکے ماتھے پر پسینہ آ گیا ۔۔ بھائی نے یہ کہہ کر فون کاٹ دیا کہ یہاں آپکی کوئی جائیداد بنک اکاؤنٹ نہیں ہے سب ہم نے کیا ہماری محنت ہے … وہ بے اختیار بھائی کی سرد مہری سے گھبرا کر لڑکھڑا گیا اور سہارا لے کر کرسی پر بیٹھنا چاہا۔۔ ٹی وی پر کوئی ڈرامے میں کہہ رہا تھا اپنے مارتے ہیں تو چھاؤں میں ہی مارتے ہیں ۔۔ مگر لوگ اپنوں کو دغا کر کے مارتے ہی کیوں ہیں اسکے منہ سے بے اختیار نکلا ۔۔ اسکا دل ڈوب رہا تھا۔۔۔درد کی شدت بڑھتی گئی ۔۔۔کمرے میں داخل ہوتے منان نے دوڑ کر اسکو پکڑنا چاہا مگر وہ زمین پر گرتا چلا گیا ۔۔۔ ائیرپورٹ پر اسکے دوست منان اور دیگر دوستوں نے اسے روتی آنکھوں سے الوداع کہا ۔۔۔۔آخر کار پی آئی اے کی فلائیٹ میں حارث کی میت پردیس سے دیس پاکستان کے لئیے پرواز کر گئی۔۔

۔ شاز ملک

Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین