ایسے ترے خیال میں ڈوبا ہوا تھا میں
اپنے ہی آس پاس میں بکھرا ہوا تھا میں
کس نے کہا ہے تم سے کہ منزل کی چاہ تھی
منزل کے تو قریب سے پلٹا ہوا تھا میں
بکھری ہوئیں تھیں کرچیاں کمرے میں جا بجا
کل آئینےکے سامنے ٹوٹا ہوا تھا میں
تم جس جگہ پہ چھوڑ کے آگے نکل گئے
کل تک اسی مقام پہ ٹھہرا ہوا تھا میں
تم مسکرا رہے تھے جو کل رات خواب میں
یعنی تمہاری آنکھ میں اترا ہوا تھا میں
جس کا جواب تم کو کئی بار دے چکا
اب بھی اسی سوال میں الجھا ہوا تھا میں
یاسر سعید صدیقی