تم مجھے بے وفا سمجھتی ہو
یعنی کے سابقہ سمجھتی ہو
یہ محبت تو ایک عبادت ہے
تم جسے آسرا سمجھتی ہو
میں تمہارا ہوں بس تمہارا ہوں
کیوں مجھے دوسرا سمجھتی ہو
کوئی جاں سے چلا گیا اپنی
اور تم واقعہ سمجھتی ہو
یہ مری انتہا ہے تم جس کو
اب تلک ابتدا سمجھتی ہو
میری آنکھوں میں جھانکنے والی
درد کا سلسلہ سمجھتی ہو
میں تو منزل ہوں تیری چاہت کی
تم مجھے راستہ سمجھتی ہو
مجھ سے کرتی ہو بات نظروں سے
یعنی کے رابطہ سمجھتی ہو
تم سے کہہ تو رہا ہوں رک جاؤ
تم میرا روکنا سمجھتی ہو
یہ تو دولت ہے صرف دولت ہے
تم جسے مرتبہ سمجھتی ہو
یاسر سعید صدیقی
تم مجھے بے وفا سمجھتی ہو