سُنو میں مان لوں کیسے تمہیں مجھ سے محبت ہے
کبھی تم نے پلٹ کے مجھ سے لو یُو ٹو نہیں بولا
کہ کتنےسال نکلے ہیں
مرے دامن میں اب تک بھی
وہی دو تین جملے ہیں
سفر آغاز کرنے پر جو تم نے مجھ سے بولے تھے
بس اُس کے بعد خاموشی مقّدر بن گئ میرا
تمہیں معلوم ہے وہ لفظ کہ جو تم
ہمیشہ دان کرتے تھے میری آغوش میں مجھ پر
بھروسہ , مان کرتے تھے
تمہارے چند جملے جو مجھے بے حد ہی پیارے تھے
مرے ویران جیون میں خوشی کے استعارے تھے
کہ تم جو بات کرتے تھے فضا میں رنگ بھرتے تھے
سماعت سانس لیتی تھی
وہ سارے بے چھوۓ جذبے جو اِن آنکھوں نے سوچے تھے
بصارت جانچ لیتی تھی مرے کمرے کے کونے میں
حو چھوٹی میز رکھی ہے کہ جس کے ایک کونے پر
تری تصویر رکھی ہے
وہیں اک ہاتھ پہ اُلٹے وہ سارے پھول وہ گجرے
جو گھر کے باغ سے توڑے
جنھیں ترتیب دے کر میں نے وہ گجرے پروۓ تھے
تمہاری آہٹوں کی گونج سنتے تھے
تو پھر وہ مسکراتے تھے وہ گجرے کِھلکھلاتے تھے
اگر تم خوشبوؤں میں گوندھ کے١ احساس دے دیتے
انہیں تم سانس دے دیتے
وہ کچھ دن اور جی لیتے
مگر مجھ کو خبر کب تھی کہ تم اظہار کرنے سے
گریزاں اِس قدر ہوگے کہ میرے ساتھ جی کہ تم
پشیماں اِس قدر ہوگے
بہت زیادہ نہیں میری بہت چھوٹی سی خواہش ہے
کبھی تو ہاتھ مرا تھام کہ بارش میں تم گھومو
میرے کاندھے پہ سر رکھ دو
میرے جذبوں کو اِس اظہار کی بے حد ضرورت ہے
میری جاں مجھ کو تیرے پیار کی بے حد ضرورت ہے
مرا اب دم اُکھڑتا ہے مرا انگ انگ سُلگتا ہے
یہ سنّاٹے ڈراتے ہیں مری وحشت بڑھاتے ہیں
تیری خاموش چاہت سے مسلسل لڑ رہی ہوں میں
میری جاں اِک نظر مجھ کو بھی دیکھو مر رہی ہوں میں
تاجور شکیل