کس لیۓ آنکھ مرے دوست چرائی تُو نے
یہ وہ تصویر نہیں ہے جو دکھائی تُو نے
بات نکلی ہے تو پھر بیٹھ ذرا یہ تو بتا
کیا کبھی سوچا مجھے دیدۂ نم تر کر کے
دیکھ کے مجھ کو تری آنکھ میں جگنو چمکے؟
سوچ کے میری ہنسی ملنے کو مجھ سے ترسے؟
سرد موسم کی فسوں خیز سی شاموں میں کہیں
یاد ماضی کے سفر میں ترے نیناں برسے؟
خوفِ خدشاتِ جدائ کبھی پالے تم نے
مجھ سے منسوب در و بام ، سنبھالے تم نے
دور رہ کر بھی مری سوچ میں بستے رہنا
روگ خود سے کئ بے کار کے پالے تم نے
فیض کو پڑھ کے مری یاد میں کھویا تُو بھی؟
میں یہاں تو ہے وہاں سوچ کے رویا تو بھی؟
آتے جاتے ہوۓ رک کر کبھی ڈھونڈا مجھ کو
کس قدر میں ہوں ضروری کبھی بولا مجھ کو
چاہتیں ہوں گی ترے دل میں، پر اظہار نہیں
میں اگر جاؤں تو روکا بصد اصرار نہیں
ہے بھی گر پیار تجھے مجھ سے تو یہ پیار نہیں
ایسی بےبس تو محبت اے مرے یار نہیں
مرے نزدیک تو ہے عشق عبادت کرنا
جا ترے بس کا نہیں پیار محبت کرنا
تاجورشکیل