loader image

MOJ E SUKHAN

17/06/2025 22:16

نظم "زندگی سے ڈرتے ہو؟” کا مابعد انسان-مرکز (Post-Humanist) تنقیدی جائزہ

نظم "زندگی سے ڈرتے ہو؟” کا
مابعد انسان-مرکز (Post-Humanist) تنقیدی جائزہ
تحریر: آصف علی آصف (آصف)
مابعد انسان-مرکز تنقید (Post-Humanist Criticism) ایک ایسا نظریہ ہے جو انسان کو مرکزیت (Anthropocentrism) سے ہٹانے، ٹیکنالوجی، مشینوں، ماحول، اور دیگر غیر انسانی عناصر کے ساتھ انسانی تعلقات کو ازسرِ نو سمجھنے پر زور دیتا ہے۔ اس نظریہ کے مطابق انسان اپنی روایتی حیثیت سے باہر نکل کر ایک وسیع تر کائناتی، حیاتیاتی اور تکنیکی نظام کا حصہ ہے جہاں وہ تنہا سب کچھ کنٹرول کرنے والا نہیں بلکہ دوسرے عوامل کے ساتھ تعاملات میں ہے۔
ن م راشد کی نظم "زندگی سے ڈرتے ہو؟” کو اگر مابعد انسان-مرکز نقطۂ نظر سے پڑھا جائے تو یہ نظم صرف ایک سیاسی یا انقلابی بیانیہ نہیں رہتی بلکہ اس میں انسان، خوف، روشنی، آگہی اور مشینوں کی دنیا کے درمیان تعلقات کو ایک نئے زاویے سے دیکھا جا سکتا ہے قطع نظر اس کہ مصنف کا اپنا نکتہ نظر کیا تھا۔
*1. انسانی مرکزیت سے انحراف (Decentering of Human Subject)*
مابعد انسان۔مرکز نظریے میں انسان کو کائنات اور زندگی کا واحد مرکز نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے ایک وسیع اور پیچیدہ نیٹ ورک کا حصہ مانا جاتا ہے جہاں دیگر عناصر بھی وجود اور معنی رکھتے ہیں۔
(الف) "زندگی”، کیا انسان ہی اس کا واحد مظہر ہے؟
"زندگی سے ڈرتے ہو؟”
یہ جملہ زندگی کی مرکزیت اور انسان کی خودمختاری کو چیلنج کرتا ہے۔سوال یہ ہے کہ زندگی محض انسانی وجود کا نام ہے یا اس کا دائرہ دیگر غیر انسانی مظاہر (جانوروں، مصنوعی ذہانت، ٹیکنالوجی، ماحول) تک پھیلتا ہے؟ اگر زندگی کا تصور وسیع کر دیا جائے تو کیا یہ نظم انسانی زندگی کی بجائے زمین، ماحول، مشین اور دیگر جانداروں کی بقا پر بھی سوال کیوں نہیں اٹھا رہی؟
(ب) "آدمی سے ڈرتے ہو؟”، کیا انسان واحد شعور رکھنے والا وجود ہے؟
جدید مابعد انسانی نظریات جانوروں، مصنوعی ذہانت، اور مشینوں کے شعور پر سوال اٹھاتے ہیں۔جب شاعر کہتا ہے "آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں”، تو کیا یہ جملہ انسان کی انانیت کو بڑھاوا نہیں دیتا؟ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ "آدمی” کا تصور صرف بایولوجیکل (Biological) انسان سے آگے بڑھ کر مصنوعی ذہانت، روبوٹس، یا دیگر ذہین مظاہر (Non-Human Intelligence) تک جائے؟
یہ تمام سوالات نظم کے انسان مرکزیت (Anthropocentrism) کو توڑنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مابعد انسانی تنقید کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔
*2. آگہی کی ترقی اور مشینی انقلاب (Technology and the New Order)*
مابعد انسانی تنقید میں ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، اور سائنسی ترقی کو بھی اہمیت دی جاتی ہے اور یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا انسانی معاشرہ اب بھی پرانے حیاتیاتی (Biological) اصولوں پر قائم ہے یا یہ مکمل طور پر مشینی وحدت (Technological Singularity) کی طرف بڑھ رہا ہے؟
(الف) "روشنی سے ڈرتے ہو؟”، روشنی بطور مصنوعی ذہانت اور سائبر دنیا عام طور پر "روشنی” کو علم اور بیداری کی علامت سمجھا جاتا ہے مگر مابعد انسانی تناظر میں یہ سائبرنیٹک انقلاب (Cybernetic Revolution) اور مصنوعی ذہانت کی ترقی کا استعارہ بھی بن سکتی ہے۔
کیا یہ روشنی صرف فکری اور نظریاتی ہے یا یہ مشینی اور ڈیجیٹل مستقبل کی نمائندگی بھی کرتی ہے؟ اگر "روشنی” مصنوعی ذہانت اور روبوٹک ترقی کی علامت ہے تو کیا یہ نظم ایک ایسے دور کی پیش گوئی نہیں کر رہی ہے جہاں انسان کا خوف نئی ٹیکنالوجی سے ہوگا؟
(ب) "لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں”، کیا انسان کا عمل اب مشینوں کے ذریعے ہوگا؟ اس جملے کا مطلب ہے کہ جب زبانیں خاموش ہو جائیں تو عمل جاگ اٹھتا ہے۔مگر کیا یہ عمل اب انسان کے ہاتھ میں رہے گا یا یہ مشینوں اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے انجام پائے گا؟ اگر "ہاتھ” کو صرف انسانی ہاتھ سے نہ جوڑا جائے بلکہ اسے روبوٹک اور مشینی ہاتھ تصور کیا جائے تو کیا یہ نظم ایک مستقبل کی پیش گوئی کر رہی ہے جہاں انقلاب کا عمل مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ممکن ہوگا؟
یہ تمام تشریحات نظم کو انسانی انقلاب سے ہٹا کر ایک مشینی انقلاب کی طرف لے جاتی ہیں جو مابعد انسانی دور کے امکانات میں شامل ہے۔
*3. خوف، کنٹرول، اور مستقبل کا غیر یقینی پن*
مابعد انسانی نظریہ میں خوف ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ جدید دنیا میں خوف صرف سیاسی اور سماجی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی، بائیو انجینئرنگ، اور مصنوعی ذہانت کے امکانات سے بھی جُڑا ہوا ہے۔
(الف) "ان کہی سے ڈرتے ہو؟”, کیا مستقبل میں انسانی کنٹرول باقی رہے گا؟
نظم "ان کہی” یعنی مستقبل کی انجانی حقیقتوں سے خوف کا ذکر کرتی ہے۔
مابعد انسانی تنقید میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ کیا انسان اب بھی اپنی تقدیر کا واحد مالک ہے یا مصنوعی ذہانت، ماحولیاتی تغیرات اور ٹیکنالوجی اس کے فیصلے کرنے لگی ہے؟
اگر "ان کہی” کا مطلب ماحولیاتی تغیرات، ڈیجیٹل انقلاب، روبوٹک کنٹرول، یا بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے انسانی زندگی کا ازسرِ نو تعین ہو تو کیا یہ نظم مستقبل کے خوف کی نمائندگی نہیں کرتی؟
(ب) "شہر کی فصیلوں پر دیو کا جو سایہ تھا، پاک ہو گیا آخر”، کیا انسان نے فطرت کو شکست دے دی؟
نظم کا یہ حصہ اشارہ دیتا ہے کہ انسان نے کسی بڑی طاقت (دیو) کو شکست دے دی ہے۔مگر کیا یہ فطرت کی طاقت ہے؟ کیا یہ ایک اشارہ ہے کہ انسان نے اپنی حیاتیاتی حدود کو عبور کر لیا ہے اور اب وہ مشینوں کے ذریعے خود کو ازسرِ نو تشکیل دے رہا ہے؟
یہ تمام سوالات نظم کو انسانی انقلاب سے نکال کر ایک بڑے مابعدالبشری، سائنسی اور مشینی انقلاب کے تناظر میں رکھ دیتے ہیں جو مابعد انسانی نظریے کا ایک اہم جز ہے۔
*نتیجہ: نظم بطور مابعد انسانی-مرکز بیانیہ*
پس مابعد انسانی تنقید کے تحت "زندگی سے ڈرتے ہو؟” ایک ایسی نظم بن جاتی ہے جو:
1. انسان کو کائنات کا مرکز ماننے کی بجائے اسے ایک وسیع تر نظام کا ایک چھوٹا جزو تصور کرتی ہے۔
2. روشنی، انقلاب اور مستقبل کو مصنوعی ذہانت اور مشینی ترقی کے تناظر میں دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
3. انسانی خوف کو صرف سیاسی اور سماجی نہیں بلکہ ماحولیاتی تغیرات، ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل کنٹرول، اور بائیو انجینئرنگ کے جدید خوف کے ساتھ جوڑتی ہے۔
4. یہ اشارہ دیتی ہے کہ شاید مستقبل میں انقلاب اور بغاوت کا عمل خود انسان کے ہاتھ میں نہ رہے بلکہ یہ مصنوعی ذہانت اور مشینی طاقتوں کے ذریعے ممکن ہو۔
یہی وجہ ہے کہ یہ نظم صرف ایک انقلابی نظم نہیں بلکہ مابعد بشری دور کے چیلنجز کی ایک ممکنہ پیش گوئی بھی ہو سکتی ہے۔
آصف علی آصف
Facebook
Twitter
WhatsApp

ادب سے متعلق نئے مضامین

اُردو میں بچّوں کا ادب

اُردو میں بچّوں کا ادب ، جنوبی ایشیا کی ایک لسانی و ادبی حقیقت (مختصر اظہاریہ) تحریر: پروفیسرڈاکٹرمجیب ظفر انوار