علم بدیع
تحریر نسیم شیخ کتاب موجِ سخن
علم بدیع بلاغت کا ایک اہم حصہ ہے اِس کو علم معنی بھی کہتے ہیں …… اِس علم میں کلام میں استعمال ہونے والی صنعتوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے……شاعری میں ایسے اظہار اور اسلوب بیان کا اہتمام کرنا جو محض ادائے مطلب کے لئے ضروری نہیں بلکہ مزید حسن و لطافت اور معنی پیدا کرے صنعت کہلاتا ہے……
علم بدیع اصطلاح میں اْس علم کو کہتے ہیں جس میں کلام کی خوبیاں معلوم ہوں ……لیکن تمام صنائع بدائع لفظی و معنوی کے زیور کلام ہونے میں شک نہیں اگر بے محل نہ ہو اور حد اعتدال سے متجاوز نہ ہو……صنعت کے بے محل استعمال ہونے یا کہی ہوئی صنعت کے بار بار دہرانے سے سامعین کو تنفر پیدا ہوتا ہے……وہ جانتے ہیں کہ صنعت بڑی چیز ہے اور اِس مقام پر تنفر نفس صنعت نہیں بلکہ شاعر کی بے سلیقی منشائے نفرت ہے……جو لوگ اِن دونوں باتوں میں امتیاز نہیں کرتے وہ نفس صنعت کو برا کہنے لگتے ہیں ……صناع و بدائع کو اگر لفظوں کا کھیل سمجھ کر ترک کیا جائے تو وزن و قافیہ سے بھی دستبردار ہونا چاہیے وہ بھی لفظوں کا ہی کھیل ہے……
آج کل مزاح نگاری میں حیدر حسنین جلیسی جس انداز میں حروف سے کھیل رہے ہیں وہ ایک الگ صنعت ہے اِس صنعت کو ادبی دنیا میں نام کی ضرورت ہے حیدر حسنین جلیسی نے جس صنعت کو متعارف کرایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے…… حیدر حسنین جلیسی نے یکساں حروف کو توڑ مروڑ کر اْن ہی حروف سے وہ لفظ بناکر اشعار میں برتے ہیں جن سے شعر کے معنی اور جاذبیت یکسر تبدیل ہو کر رہ گئی…… حیدر حسین جلیسی نے صنف مزاح میں شاعری کو میرے مطابق سانسیں عطا کردیں ہیں ……چند قطعات مثال کے طور پر پیش کر رہا ہوں جس میں الگ الگ فن کاری موجود ہے…… یعنی لفظ کو پلٹنے سے کیا لفظ وجود میں آرہا ہے…… حرف میں ایک لفظ شامل کرنے سے اْس لفظ کے معنی کس طرح بدل رہے ہیں اور لفظ کو توڑنے سے اْس لفظ کے معنیٰ کس طرح تبدیل ہو رہے ہیں ……یہ صرف لفظ توڑنے یا گھمانے یا جوڑنے کا کھیل نہیں بلکہ اِس میں قطع اپنی پوری معنوی حیثیت کے ساتھ اعلان کر رہا ہے کہ ادھر دیکھو میں بھی ہوں ……میرے نزدیک حیدر حسین جلیسی کی متعارف کردہ یہ صنعت قابلِ تقلید بھی ہے اور سامعین کے لیے اِس صورتحال میں جب مزاح نگاروں کے پاس مضامین کی قلت ہے اور وہ اْن ہی روایتی گھسے پٹے مضامیں کو پیٹ رہے ہیں حیدر حسنین جلیسی کی متعارف کرائی گئی یہ صنعت خزاں میں بہار کا جھونکا ہے……مگر چند کتابوں میں ہلکا سا اشارہ ملا ہے جس کا ذکر کرنا ضروری ہے تاکہ حیدر حسنین جلیسی کی ان کاوشات کو عروضی اعتبار دلایا جا سکے۔
میری نظر سے صنعت قلب کا گزر ہوا……جس میں بتایا گیا کہ انسان کو انسان اِس لیے کہتے ہیں کہ وہ جلد مانوس ہو جاتا ہے اور قلب کو قلب اِس لیے کہتے ہیں کہ یہ ادلتا بدلتا رہتا ہے…… قلب کے لغوی معنی بدلنا کے ہیں ……انقلاب لفظ اِسی لفظ کی جمع ہے۔
اگر کسی لفظ کو اْلٹنے سے وہی لفظ دوبارہ بن جائے تو اْسے صنعتِ قلب کہتے ہیں ……اِسی طرح اگر لفظ کے حروف ادل بدل کر سارے کے سارے دوسرے میں آجائیں تو یہ سب تقلیب کی صورتیں ہیں۔
دنیا میں ہے خزانہ لڑائی کا گھر صدا
از رو غور گنج کو اْلٹو تو جنگ ہے
میرے نزدیک مگر اِس صنف کی یہ مثالیں ناکافی ہیں اِس صنف میں وسعت حاصل کرنے اور پھلنے پھولنے کی کافی صلاحیت موجود ہے جسے حیدر جلیسی نے بہت عمدہ انداز میں قطعات کی صورت دنیائے اردو پر آشکار کیا…… اِس سلسلے میں دیکھتے ہیں کہ حیدر حسنین جلیسی نے کس انداز سے حروف سے نئے حروف تشکیل دئیے۔میری نظر میں موجودہ دور میں حیدر جلیسی حرف شناس کہلانے کے حق دار ہیں اور اِس صنعت کی جیتی جاگتی تصویر ہے……آئیے دیکھتے ہیں
مثال نمبر 1
ترازو……
کسی مسند پہ کھوتا ہے کسی مسند پہ کھوتی ہے
یہ اب جمہوریت کیسی ہے پوری قوم روتی ہے
کبھی ت ر ا ز و کی ترتیب کو اْلٹو
ترازو کو اْلٹنے سے وزارت سیدھی ہوتی ہے
مثال نمبر 2
ہم اْردو بولنے والے ہیں بس اْردو زباں جیسے
بتانا یہ ضروری اب سمجھتا ہوں تمہیں پیارے
ہمیں ت م چھوٹی ہ الف رے ے بڑی سمجھو
ملا لو تو تمہارے اور الگ کردو تو تم ہارے
مثال نمبر 3
اِک میم نے کیا ہے مرے حال کو محال
پورے وجود کو مرے موجود کر دیا
ایسی تو مَیم بھی نہ تھی جیسی یہ مِیم ہے
اِس نے تو سچ حدود کو محدود کر دیا
صوتی تاثر سے تبدیلی کس طرح وجود میں آتی ہے یہ دیکھیں۔
پہلے جیسا اب نہیں انگلش میں دا دا کا چلن
بدلا بدلا اب تلفظ ہر نگر ہر گھر میں ہے
کوئی دا کہتا ہے ٹی ایچ ای کو اور اب کوئی دی
یعنی انگریزی زباں دادی کے اب چکر میں ہے
علم بدیع صرف مروجہ صنعتوں تک محدود نہیں ہے نئے فکری اور فنی رویوں کے تحت بعض صنعتیں متروک ہو سکتی ہیں تو اِسی طرح سے الفاظ کی تازگی اور فکری تجربوں سے نئی صنعتیں پیدا بھی ہو سکتی ہیں۔صنعت سے مراد اگر جدت لیا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا جا رہا ہے انسان کے ذہن کے پرت بھی کھلتے جا رہے ہیں اور ہر علم چاہے وہ شاعری کا ہو یا سائنس مسلسل پرواز بھر رہا ہے۔اِس کی جیتی جاگتی مثال حیدر حسنین جلیسی ہیں جنہوں نے بے شمار تراکیب سے قطعات کہے اور اِس صنعت میں نئے نئے طریقے ایجاد کیے بلاشبہ حیدر حسنین جلیسی اِس صنعت کے موجد کی حیثیت سے ہمارے سامنے ہیں اللہ ا ِن کے علم میں اضافہ فرماتے ہوئے رزق سخن میں کبھی کمی نہ آنے دے آمین۔ہاں مگر صنعت قلب میں مثال ایک ترکیب ہے جبکہ حیدر حسنین جلیسی کے ہاں کئی اقسام کی تراکیب جدت اور تخلیق ہے۔
علم بدیع میں اختراع اور ارتقا کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔علم بدیع کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
(صنائع معنوی) یعنی سوچ کا پیمانہ(صنائع لفظی) یعنی لفظوں کا پیمانہ
٭ صنائع معنوی
(ایہام)اِس کو توریہ بھی کہتے ہیں اِس کے لغوی معنی چھپانا ہے۔اصطلاح میں ایسے لفظ کو کہتے ہیں جس کے دو معنی ہوں اور جو معنی فوراً سمجھ آ جاتے ہوں بلکہ دوسرے معنی سے مراد ہے، شاعر شعر میں کوئی ایسا لفظ لاتا ہے جس سے سامع تھوڑی دیر کے واسطے وہم میں پڑ جائے کہ اِس کے درست معنی کیا ہیں ایسے لفظ عموماً دو معنی ہوتے ہیں ایک معنی قریب اور دوسرے معنی بعید۔
عموماً شاعر مراد معنی بعید سے ہوتی ہے جو سامع کے ذہن کو تھوڑی دیر بعد سمجھ آجاتا ہے۔
ایہام کی بھی دو قسمیں ہیں۔
(الف) ایہام مجردہ……جس میں معنی قریب کے مناسبات کا کلام میں کچھ ذکر نہ ہو۔
اِس کی مثال اس مطلع کے شعر میں دیکھیں
سالم نگل گیا مجھے یہ عشق اِس طرح
بھینسا نگل گیا ہو مگر آب جس طرح (نسیم شیخ)
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ارکان میں اس اور جس قوافی جبکہ ردیف طرح ہے اب اِس میں مگر آب سے مراد پانی کا مگر مچھ ہے جو پہلی بار سننے میں سامعین کے لئے سمجھنا آسان نہ ہوگا مگر جب سمجھ آئے گا تو شعر جاندار معلوم ہوگا یہ ایہام مجردہ کہلائے گا۔
(ب) ایہام مرشحہ……
اِس میں معنی قریب کے مناسبات کا بھی کلام میں ذکر کیا جائے۔مثال کے طور پر یہ شعر دیکھیں
نعتوں کو لکھ کہ ہوتا ہوں حیران رات بھر
جامی کے قافلے سے بھلا کیسے جڑ گیا (نسیم شیخ
(تضاد)
اِس کو طباق یا تطبیق بھی کہتے ہیں۔اصطلاح میں شعر میں ایسے الفاظ کا استعمال ایک ساتھ کیا جائے جس میں بہ اعتبار معنی تضاد پایا جائے۔یہ تضاد اِسم فعل حرف اور دوسرے اجزائے کلام کے مابین ہو سکتا ہے۔تضاد کی پانچ قسمیں ہیں۔
(الف) طباق ایجابی الفاظ متضاد ہوں مگر حرف نفی جڑا ہوا نہ ہو مثال کے طور پر
اْس کی نفرت میں جھلکتا ہے محبت کا خمار
مان لوں پھر کس لئے میں زندگی سے آج ہار
(نسیم شیخ)
(نفرت اور محبت)
(ب) طباق سلبی
ایسے الفاظ جو ایک ہی مصدر سے ہوں اور متضاد ہوں اْن کا تضاد حرف نفی سے واضح ہوتا ہے۔اب اِس شعر میں دیکھیں۔
بولو نہ کچھ کہو نہ لکھو چپ رہو فقط
ایسا نہ ہو کہ میری طرح قید میں سڑو (نسیم شیخ)
(نہ ہو کہ)
(ج) طباع اربعہ
یہاں متضاد عناصر اربعہ کا ذکر ایک ساتھ کیا جاتا ہے جیسے کہ اس شعر میں دیکھیں چار متضاد عناصر کو شعر میں ایک ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔
بادِ صبا لگا گئی وہ آگ خاک کو
پانی بجھا سکا نہ جسے آنکھ کا مری(نسیم شیخ)
(بادِ صبا ۔آگ۔ خاک۔ پانی)
(د) تذبیج
ایک سے زیادہ رنگ ہوں جو ایک دوسرے سے متضاد ہوں اِس شعر میں دیکھیں رنگوں کا استعمال کس طرح کیا سبز اور سرخ رنگ ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔
مجھ کو تو زہر سبز پلایا تھا عشق نے
یہ سرخ کیسے آج اْگلنے سے ہو گیا (نسیم شیخ)
(ح) ایہام تضاد
یعنی کلام میں دو ایسے الفاظ جمع کئے جائیں جن کے ایک معنی میں تضاد نہ ہو مگر حقیقی معنوں میں تضاد ہو جیسے داغ صاحب کا یہ شعر مثال کے طور پر
لکھ کر زمیں پہ نام ہمارا مٹا دیا
اْن کا تو کھیل خاک میں ہم کو ملا دیا(نسیم شیخ)
٭ مراعات النظر
اِس کو تناسب توفیق اور تلفیق بھی کہتے ہیں اِس کی ایک شکل ضلع جگت کے نام سے مشہور ہے۔کلام میں ایسے الفاظ جمع کئے جائیں جن کے معنی میں ایک دوسرے کے ساتھ نسبت واقع ہو مگر نسبت تضاد کی نہ ہو۔مثال کے طور پر یہ شعر دیکھیں۔
وہ لو وہ آفتاب کی حدت وہ تاب و تب
کالا تھا رنگ دھوپ سے دن میں مثال شب
(آفتاب۔ لو۔حدت۔تاب و تب۔دھوپ۔کالا رنگ)
کلام کے بعض اجزاء یعنی دو لفظوں میں دو فقروں میں اور کبھی ایک ہی بیت کے دو مصرعوں میں تقدیم و تاخیر کرنے سے کوئی جدت اور خوبی پیدا ہو تو صنعت عکس کہتے ہیں اس کی تین قسمیں ہیں۔
الف
لفظوں میں تقدیم و تاخیر مثال
دنیا کی زیب و زینت کاشانہِ بتول
ب……فقروں میں تقدیم و تاخیر مثال
مجرم کو ہیر پھیر سے محرم بنا دیا
نقطے نے اپنا رنگ عجب سا دکھا دیا
(نسیم شیخ)
(ج)……مصرعوں میں تقدیم و تاخیر
پھولوں کو لے کہ بادِ بہاری پہنچ گئی
بستانِ کربلا میں سواری پہنچ گئی
٭ رجوع یا آورد
یعنی ایک مضمون لکھیں پھر اْسے ناقص سمجھ کر اْس سے بہتر مضمون لکھیں اِس صفت کا دراصل مقصد مدح میں ترجیح اور ترقی ہوتا ہے۔مثال کے طور پر یہ شعر دیکھیں پہلی بار اْسے اِس طرح لکھا گیا پھر اْسے ناقص سمجھ کر اْس سے اچھا لکھا گیا اِس عمل کو آمد اور آورد بھی کہا جا سکتا ہے۔آمد اْسے کہتے ہیں جو تخیل سے نکل کر قرطاس پر لفظوں کے روپ میں جنم لے۔آمد ضروری نہیں کے بحر میں ہو آمد بس خیال ہے جبکہ آورد اس خیال کو عروض کی کسوٹی سے گزار کر اْسے مترنم اور دلکش بنانے کے عمل کو کہتے ہیں۔
دیارِ دل میں رحمت کا چراغاں جب بھی ہوتا ہے
تو آنکھوں سے سمندر نعت کی صورت اْبلتا ہے
(رجوع کرنے یا آورد کے بعد یہ شعر اس طرح سے ہوا)
دیارِ دل میں مدحت کا چراغاں جس کے ہوتا ہے
تو آنکھوں سے سمندر نعتیہ اْس اْس کے بہتا ہے
(نسیم شیخ)
٭ لف و نشر
لغت میں (لف) کے معنی لپٹنا ہے اور نشر کے معنی پراگندا یعنی جاری کرنا ظاہر کرنا ہے۔اصطلاح میں ابتدا چند چیزوں کا ذکر کیا جائے گا پھر اْن کی خبریں اور صنعتیں بیان کی جائیں گی۔
یہاں پہلے چند چیزیں بیان کی جاتی ہیں جن کو لف کہتے ہیں اِس کے بعد وہی چیزیں یا اْن سے منسوبات اِسی ترتیب سے اْلٹی ترتیب یا بغیر کوئی ترتیب کے بیان کی جاتی ہیں جس کو نشر کہتے ہیں۔ اِس کی دو قسمیں ہیں۔
(الف) لف و نشر مرتب
اگر دونوں مصرعوں میں ایک ہی ترتیب سے ہو تو اْسے مرتب کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر
ساتھ اْس کے اور اْسی قد و قامت کا ایک پل
نازاں وہ ضرب گرز پہ یا تیغ تیز پر
(ب)…… لف و نشر غیر مرتب اگر ترتیب نہ ہو تو اس کی دو قسمیں ہیں
(1)لف و نشر معکوس الترتب
اِس میں لف و نشر کی ترتیب الٹی ہوتی ہے
پنجہ اِدھر چمکتا تھا اور آفتاب اْدھر
اِس کی ضیا تھی خاک پر ضو اْس کی عرش ہر
(2)لف و نشر مختلف الترتیب
اگر لف و نشر کی ترتیب مختلف ہو۔
لڑکے وہ سات آٹھ سہی قد سمن عذار
گیسو کسی کے چہرے پہ دو اور کسی کے چار
اوماج……شعر میں ایسے الفاظ اور ایسی تراکیب کا استعمال کرنا جن سے مجموعی طور پر دو معنی یا دو مفہوم پیدا ہوتے ہوں قاری کو اختیار ہے کہ وہ کسی ایک معنی یا مفہوم کو قبول کرے اور دوسرے کو رد کر دے۔اوماج کا خاصہ کثیر الا معنویت ہے غالب اور انیس کے کلام میں اوماج کی مثالیں زیادہ ہیں۔
مثال
سوکھی زبانیں شہد فصاحت سے کامیاب
گویا دہن کتاب بلاغت کا ایک باب
استتباع
ممدوع کی تعریف میں ایسے الفاظ لائے جائیں کہ ایک تعریف سے دوسری تعریف بھی اَز خود پیدا ہو اِس کو مدح الموجہ بھی کہتے ہیں۔
اِس کی مثال میں یہ شعر دیکھیں
گردوں پہ ناز کرتی تھی اِس دشت کی زمیں
کہتا تھا آسمان دہم چرخ ہفت میں
ارصاد
اِس کو تسبیم بھی کہتے ہیں اور ارصاد بھی۔ اِس کے لغوی معنی پہرے دار بٹھانا ہے یعنی پہلے مصرع میں ایسا لفظ لانا کہ پڑھنے والے کو دوسرے مصرع کے الفاظ کا گمان ہو سکے۔جیسے کہا جاتا ہے کہ مصرع بول رہا ہے۔یہ اِس لیے کہتے ہیں کہ سننے والے کو گمان ہوتا ہے کہ اگلے مصرع میں اب یہ آئے گا۔
مثال کے طور پر
سفینہ زندگی جب ہو درودوں کے حصاروں میں
تو وہ طوفاں کا سینہ چیر کر ساحل سے لگتا ہے
(نسیم شیخ)
یا خم گردنیں تھیں سب کی خضوع و خشوع میں
سجدوں میں چاند تھے مہہ نو تھے رکوع میں
استخدام
شعر میں ایسا لفظ استعمال کرنا جس کے دو معنی ہوں مگر شاعر کی مراد ایک خاص معنی سے ہوں لیکن ضمیر کے معنی خیز استعمال کی وجہ سے دوسرے معنی بھی لئے جا سکتے ہیں۔
استدراک
اِس کو تدارک بھی کہتے ہیں پہلے مصرع میں کچھ ایسے الفاظ استعمال ہوں کہ پڑھتے وقت ہجو کا گمان ہو مگر دوسرے مصرع پر پہنچنے کے بعد معلوم ہو کہ ہجو نہیں بلکہ مدح ہے۔
مثال کے طور پر
اگر ہے لہو کو کچھ دخل حافظہ میں تو یہ
نہ اپنا یاد ہے احسان اور کی تقصیر
اطراد
اِس کے لغوی معنی پے درپے لانا ہے۔ اصطلاح میں وہ صنف مراد ہے جس میں ممدوع کی تعریف اِس طرح کی جائے کہِ اس کے آباؤ اجداد کے نام یکے بعد دیگرے کلام میں لائے جائیں اِس کی دو قسمیں ہیں۔
(الف) اطراد مرتب
جس میں نام ترتیب کے ساتھ ہوں
مثال
علی کے نور نظر فاطمہ کے لختِ جگر
خدا کے نور ریاض رسول حق کے شمیم
(ب) اطراد غیر مرتب…… جس میں نام ترتیب کے بغیر ہوں
ایراد المثل
اِس کو ارسال المثل بھی کہتے ہیں کلام میں کہاوتوں یعنی ضرب المثل کو نظم کرنے کو کہتے ہیں اس کی دو قسمیں ہیں۔
(الف) ارسال المثل…… اگر کہاوت کسی لفظی تغیر کے بغیر نظم کی جائے تو اِسے ارسال المثل کہتے ہیں اس کی مثال کچھ اس طرح سے ہے۔
انگلش کو ہند سے نکالیں گے آپ
اِس ملک کی سلطنت سنبھالیں گے آپ
میں بے شک مانتا ہوں بابو صاحب
سرسوں بھی ہتھیلی پر جمالیں گے آپ
(ب) ضرب المثل …… اگر کہاوت کسی لفظ کے تغیر کے ساتھ نظم کی جائے تو اْسے ضرب المثل کہتے ہیں۔
مثال کے طور پر یہ مصرع دیکھیں
بے مثل سینکڑوں میں ہزاروں میں ایک ہے
تجاہلِ عارفانہ
اِس کو تبلیغ تجاہل العارف اور شوق المعلوم مساق بھی کہتے ہیں۔ اِس کے لغوی معنی جان بوجھ کر انجان بننے کے ہیں اصطلاح میں کسی چیز کی نسبت باوجود علم کے اپنی ناواقفیت ظاہر کرنا تاکہ مبالغہ کیا جا سکے۔مثال
ہے زلف یا دھواں ہے یہ شمع جمال کا
اعجاز حسن و ناز سے اونچا نہ ہو سکا
جامع السانین (یا دو رو)
لغوی معنی میں دو زبانوں کو جمع کرنے والا اصطلاحی معنوں میں کسی فقری یا مصرع میں نقطوں کی تبدیلی کے ساتھ دو زبانوں میں پڑھا جائے وہ جامع السانین یا دورو کہا جاتا ہے۔
مثال فارسی
رسیدی بدیدی مرادی بخوائی
زمانی بماشی بہ یاری بشائی
عربی
رشیدی ندیدی مرادی نجاتی
رمانی بباس تباری نسائی
اگر کسی ایک شعر کا ایک مصرع کسی اور زبان میں ہو اور دوسرا مصرع اردو میں ہو تو یہ ذو السانین ہی کہلائے گا۔یہ کیونکہ اردو شاعری میں کم دکھتا ہے اِس لئے مزید تفصیل بیکار ہے۔
حشو…… اِس کے لغوی معنی ٹھونسنا ہیں یعنی شعر میں ایسے الفاظ ہوں جو غیر ضروری ہوں وہ حشو صنعت بھی ہے اور عیب بھی اِس کی تین قسمیں ہوتی ہیں۔
(الف)حشو قبیح
ایسے بھرتی کے الفاظ جس سے کلام کا مرتبہ گھٹ جائے۔مثال
روئے آنسو اِس قدر ہم ہجر میں
اشک کے طوفاں سے دریا بھر گیا
اِس میں روئے اور آنسو ایک معنی ہیں آنسو حشو ہے اور شعر کا بھی بیڑا غرق ہو گیا گو کہ یہ شعر وزن میں ہے مگر اِس میں حشو ہے (فاعلاتن فاعلاتن فاعلن) اِس کے بجائے اگر شعر ایسے کہا جاتا۔
روئے ہم اِس ہجر میں کچھ اِس قدر
دشتِ دل دریا ہمارا بن گیا
(نسیم شیخ)
(فاعلاتن فاعلاتن فاعلن) رمل مسدس محذوف گو کہ اس شعر میں قافیہ تبدیل ہوا مگر شعر معنی حاصل کر گیا اگر قافیہ کی اشد ضرورت ہو تب بھی ایسا ہوستا تھا
روئے ہم اس ہجر میں کچھ اس قدر
اشک کے طوفاں سے دریا بھر گیا
اشک کے طوفاں سے دریا بھر گیا
(ب) حشو متوسط
ایسے بھرتی کے الفاظ جس سے کلام کے مرتبہ پر کوئی اثر نہ پڑے۔
مثال
تو ہے بحرِ بیکراں میں تشنہ و تفیدہ لب
اے جہان جود و ہمت پیاس کو میری بجھا
(ج) حشو ملیح
ایسے بھرتی کے الفاظ جس سے کلام کے حسن اور اثر میں اضافہ ہو بہرحال اْنہیں بھرتی کے الفاظ کہنا درست نہیں۔
مثال
وہ عجز وہ طول رکوع اور وہ سجود
اِس مصرع میں وہ کی تکرار حشو کی ملیح ہے اِس سے حسن زیادہ ہو رہا ہے۔
صنائع لفظی
صنائع لفظی کی دو قسمیں ہیں۔
٭ مصجع……اْس کلام کو کہتے ہیں جس کے مصرعوں کے آخری لفظ برابر ہوں ……
(الف) مسجع متوازی
اِس میں مصرعوں کے آخری لفظ وزن عدد اور حروف روی میں برابر ہوں مثال کے طور پر گل۔مل۔قلم۔رقم اس کی مثال کے لئے یہ شعر دیکھیں
آخر ہے رات حمد و ثنائے خدا کرو
اْٹھ جاؤ اب فریضہ ء سحری ادا کرو
(خدا اور ادا)
(ب) مسجع متوازن
اِس میں مصرعوں کے آخری لفظ وزن اور عدد میں تو برابر ہوں لیکن حروف روی میں مختلف ہوں جیسے مراتب و مراسم یا جگر و قضا……
(ج) مسجع مطرف
اِس میں مصرعوں کے آخری لفظ روی میں متفق اور وزن میں مختلف ہوں جیسے صریر اور تحریر لال اور وصال اِس شعر میں دیکھیں ……
مثال
چہرہ خوشی سے سرخ ہے زہرا کے لال کا
گزری شبِ فراق دن آیا وصال کا
ترصیع
دونوں مصرعوں کے الفاظ علی الترتیب ایک دوسرے کے ہم وزن ہونے کو ترصیع کہتے ہیں۔
تکرار
اِس کو تکریر بھی کہتے ہیں۔ دو لفظوں کو جو کتابت اور تلفظ اور معنی میں ایک ہوں اور اْن کو مصرعوں یا شعر میں برابر جمع کرنا یعنی کسی مصرع یا شعر میں ایک لفظ کی تکرار کی جائے اِس کی سات قسمیں ہیں۔
(الف)تکرار مطلق
کسی شعر میں لفظ مکرر آئیں
مثال
زخموں سے چور میرا بدن تار تار ہے
ڈھونا عذاب اس پہ وفاؤں کا بار ہے
(نسیم شیخ)
(ب)تکرار مثنیٰ
اگر مصرع میں علیحدہ علیحدہ دو دو لفظ آجائیں
مثال
پڑھنا وہ جھوم جھوم کہ غزلوں کا بار بار
(ج)تکرار مشبہ……اِس میں پہلے مصرع کے تکراری الفاظ سے دوسرے مصرع کے تکراری الفاظ کا تعلق ہو جیسے
مثال
ہیں اِس شہر میں بے کس و دلگیر ہائے ہائے
ڈستی ہے اْن کو اْن کی ہی تقدیر ہائے ہائے
(نسیم شیخ)
(د)تکرار مجدد
اِس میں لفظ مکرر اس طرح آئے کہ دوسرے لفظ سے معنی میں ایک نیا پہلو پیدا ہو۔
مثال
دیکھیں فضا بہشت کی دل باغ باغ ہو
اِس مصرع میں باغ باغ
(ھ)تکرار بالواسطہ
جو دو لفظ مکرر کے درمیان کوئی اور لفظ ہو
مثال
وہ جا بہ جا درختوں پہ تسبیح خواں طیور (جا بہ جا)
(ز)تکرار موکد
جب تکراری لفظ میں دوسرا لفظ پہلے کی تاکید کرے اور معنی میں زور پیدا ہوا۔
یہ خواب سبز سبز دکھانا فضول ہے
ہم پر ہوئے ہیں وار محبت میں بار بار
(نسیم شیخ)
(سبز سبز اور بار بار)
شاعری میں صنعت کیا ہے اور کتنی ہیں۔
صنعت خیفا……
یہاں کلام میں ایک کلمہ منقوط اور دوسرا کلمہ غیر منقوط ہوتا ہے یعنی ایک لفظ کے حروف نقطے والے اور دوسرے لفظ کے حروف غیر نقطہ والے ہوتے ہیں۔اِس صنعت کی مثال غزل پیش ہے۔ فی الحال ایک مصرع مثال کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔
جبین لامع زینت حصول جشن مرام
جبیں نقطے کے ساتھ لامع بے نقط زینت نقطے کے ساتھ حصول بے نقط جشن نقطے کے ساتھ مرام بے نقط۔اب اِسی ترتیب سے غزل دیکھیں۔اِس میں کچھ جدت برتی گئی ہے پہلے مصرع میں بے نقط اور مصرع ثانی میں نقطے کے ساتھ شروع کیا مگر مصرعوں کی ترتیب یہ ہی ہے۔یہ اِس لیے کیا کہ دونوں مصرعوں کی ترتیب قائم رہے۔
غزل
دل ہجر کا اسیر ہوا شاعری ہوئی
یعنی کے بے بسی مری تابندگی ہوئی
مجھ کو چلا کے دشت کی پتھریلی گام پر
اْس نے کہا مجھے ہاں بہت ہی خوشی ہوئی
پہلے کسی مزار کو چادر سے ڈھانپ کر
دل پوچھنا ہَوا کیا مری عاشقی ہوئی
اِک بار دل نے درد پیا دل چہک اْٹھا
پھر محوِ رقص دل ترے ہاں مے کشی ہوئی
دل پر کھلا حیات کا دروازہ اور پھر
ہائے مکینِ دل یہ مری بزدلی ہوئی
آجاؤں گا پلٹ کے میں صحرائے کیف سے
کیونکہ کمالِ ذوق مری سرکشی ہوئی
دل نے سرائے عشق کو بخشی سرائے کیف
قرطاس کی حیات مری بے بسی ہوئی
تجھ کو تو کل امان کا دروازہ مل گیا
رختِ ملال یار مری زندگی ہوئی
کس نے لگائی پیار سے آواز کے مجھے
اْس وقت ہائے کیا کہوں شرمندگی ہوئی
ٹوٹا یقیں کی شاخ سے پتا ہرا بھرا
جب ہائے خود سے یار مری دوستی ہوئی
صنعت فوق النقاط
وہ کلام جس میں ایسے نقطے دار حروف ہوں جن کے نقطے اوپر لکھے جائیں۔
مثال
مانگا کاغذ دوات خامہ
لکھا اِس طرح کا وہ نامہ
صنعت تحت النقاط
وہ کلام جس میں ایسے نقطے دار حرف استعمال ہوں جن کے نقطے نیچے لکھے جائیں۔مثال کے طور پر
عکسِ پری ہے پیار کے چہرے میں جب عیاں
لیلیٰ کے پیچھے کس لئے اب جاؤں میں بھلا
صنعت منقوطا کلام
وہ کلام جس کے تمام حروف نقطہ دار ہوں منقوطا کہلاتا ہے مثال۔
بخشش فیض بینی زین جشن
جنبش غیظ نبینی زین جشن
اِس قسم کے شعر یا کلام صنعت عاطلہ یا تعطیل کہتے ہیں گو کہ اِس قسم کے اشعار اردو شاعری میں دیکھنے کو نہیں ملتے مگر اِس صنف کا تذکرہ اور پہچان ضروری ہے۔
صنعتغیر منقوطہ کلام
اِس کو مہملہ کہتے ہیں اِس کلام میں سب حروف بغیر نقطہ کے ہوتے ہیں انشاء اللہ خان انشاء کا دیوان اور مرزا دبیر کا ایک پورا مرثیہ اِس صنعت میں موجود ہے۔
انشا وہ کس کا آسرا ہو سر گروہ اِس راہ کا
آسرا اللہ اور آلِ رسول اللہ کا
انیسسرور کہو اسلام کا اِس مالکِ کل کو
آرام دو اک دم دلِ سردار رسل کو
صنعت تو شیح
مصرعوں یا شعر کے حروف اولین سے کوئی عبارت لفظ یا نام نکلتا ہو جس طرح ڈاکٹر منور احمد کنڈے نے بنام راقم یہ توشیحی نظم بطور ہدیہ پیش کی تھی۔ کیونکہ میرا مضمون توشیحی نظم کی وضاحت ہے اِس لئے پوری نظم پیش ہے۔
نسیم شیخ (ن س ی م ش ی خ)
ن نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تمہاری شاعری میں ہے کسی طوفان کا عنصر
س سہانی شام میں سورج کی تابانی چلی جائے
نسیمِ صبح کی خاطر شبِ غم بھی ڈھلی جائے
ی یہی کہ شیخ صاحب کے خیال و فکر ہیں اونچے
حروفِ عشق میں یہ درد کے آکاش پر پہنچے
م منور کر رہے ہیں شعر کو جگنو محبت کے
دعا کو اٹھ رہے ہیں ہاتھ جیسے پھر صداقت کے
ش شعاع مہتاب کی جیسے اندھیرے دور کر ڈالے
چکوری کے دلِ معصوم کو مسرور کر ڈالے
ی یقیں محکم مکانِ دل کے ہر اک باب پر دیکھا
مسافر سوچ کا شب بھر سمندِ خواب پر دیکھا
خ خمارِ الفتِ محبوب ہے اشعار میں زندہ
مگر ساقی نسیم اپنا منور وقتِ رخشندہ
صنعتِ توشیح چو رخی……اِس صنعت میں بھی توشیح کی طرح نام کے حرف سے مصرع شروع کیا جاتا ہے مگر جہاں مصرع کا اختتام ہوتا ہے وہ حرف نا صرف ابتدائی حرف میں ہوتا ہے بلکہ شعر کے چاروں کونوں میں وہ ہی حرف ہوگا۔ اِس سلسلے میں ابنِ عظیم فاطمی کی پوری کتاب تشبیب موجود ہے۔ صنعتِ توشیح چورخی کی مثال دیکھیں۔
نسیم شیخ کی موجِ سخن
ن……
نظر کے سامنے موجِ سخن کا ہے درپن
نہایت عرق ریزی سے مٹائی ہے ہر اِک اْلجھن
س……
سوالِ شاعری بحر و صنعت کی جو بجھا دے پیاس
سجائی حرف و معنیٰ کی سخن کی فکر کی وہ آس
ی……
یہاں جو حرف ہے ہر حرف سے ظاہر ہے تابانی
یقیں کی رہ گزر پر آگئی ہر فکرِ امکانی
م……
مثالی کام یہ موجِ سخن نے دے دیا انجام
مثالوں سادہ باتوں سے مٹایا جو بھی ہے ابہام
ش……
شہادت کیوں نہ دوں اچھی بہت ہے اِن کی یہ کاوش
شعور و فکر سے لبریز ہر دل کی ہے یہ خواہش
ی……
یہ پیمانہ توازن جانچنے کی تربیت ساری
یہ حرف و صوت شعر و نظم کی تقطیع بھی ہے کرتی
خ……
خیال و فکر کی دنیا میں لائے روشنی کے رْخ
خمیرِ شعر گوئی میں سجاتی آگہی کے رْخ
ک……
کمالِ علم و دانش فہم کی روشن حسیں پوشاک
کسی طرح کی اْلجھن کے یہ کردیتی ہے پردے چاک
ی……
یہی خوبی نسیمَ خوش نظر کی ہم نے جب دیکھی
یقیں کیجے کہ از خود بن گیا ہے ربطِ نزدیکی
نسیم شیخ کی موجِ سخن
ن……
نظر کے سامنے موجِ سخن کا ہے درپن
نہایت عرق ریزی سے مٹائی ہے ہر اِک اْلجھن
س……
سوالِ شاعری بحر و صنعت کی جو بجھا دے پیاس
سجائی حرف و معنیٰ کی سخن کی فکر کی وہ آس
ی……
یہاں جو حرف ہے ہر حرف سے ظاہر ہے تابانی
یقیں کی رہ گزر پر آگئی ہر فکرِ امکانی
م……
مثالی کام یہ موجِ سخن نے دے دیا انجام
مثالوں سادہ باتوں سے مٹایا جو بھی ہے ابہام
ش……
شہادت کیوں نہ دوں اچھی بہت ہے اِن کی یہ کاوش
شعور و فکر سے لبریز ہر دل کی ہے یہ خواہش
ی……
یہ پیمانہ توازن جانچنے کی تربیت ساری
یہ حرف و صوت شعر و نظم کی تقطیع بھی ہے کرتی
خ……
خیال و فکر کی دنیا میں لائے روشنی کے رْخ
خمیرِ شعر گوئی میں سجاتی آگہی کے رْخ
ک……
کمالِ علم و دانش فہم کی روشن حسیں پوشاک
کسی طرح کی اْلجھن کے یہ کردیتی ہے پردے چاک
ی……
یہی خوبی نسیمَ خوش نظر کی ہم نے جب دیکھی
یقیں کیجے کہ از خود بن گیا ہے ربطِ نزدیکی
م……
مزاجِ شاعری سے آگہی کی ہے یہ اِک سرگم
مقامِ سر خوشی پر کھینچ کر لاتی ہے یہ پیہم
و……
وسیلہ کیوں نہ بن جائے تمہارا اے سخن والو
وقارِ شعر فہمی کے لیے تم اِس کو پڑھ ڈالو
ج……
جہاں میں آبرو پائے نہ کیوں کر یہ سخن معراج
جمالِ ندرتِ فکر و نظر سے رخ ہے روشن آج
س……
سخن پرور تمہاری کاوشیں ہیں منفرد اور بس
سرِ تسلیم خم کیوں کر کرے نہ ہرکس و ناکس
خ……
خمیرِ فکر میں گوندھی ہوئی ہے عزم کی یہ کاغ
خبر دیتی ثمر کی ہے شجر کی جیسے اِک اِک شاخ
ن……
نگارستاں عروض و بحر کی ہر اِک ادا روشن
نگارش میں سلاست گفتگو میں ایک اْجلا پن
مزاجِ شاعری سے آگہی کی ہے یہ اِک سرگم
مقامِ سر خوشی پر کھینچ کر لاتی ہے یہ پیہم
و……
وسیلہ کیوں نہ بن جائے تمہارا اے سخن والو
وقارِ شعر فہمی کے لیے تم اِس کو پڑھ ڈالو
ج……
جہاں میں آبرو پائے نہ کیوں کر یہ سخن معراج
جمالِ ندرتِ فکر و نظر سے رخ ہے روشن آج
س……
سخن پرور تمہاری کاوشیں ہیں منفرد اور بس
سرِ تسلیم خم کیوں کر کرے نہ ہرکس و ناکس
خ……
خمیرِ فکر میں گوندھی ہوئی ہے عزم کی یہ کاغ
خبر دیتی ثمر کی ہے شجر کی جیسے اِک اِک شاخ
ن……
نگارستاں عروض و بحر کی ہر اِک ادا روشن
نگارش میں سلاست گفتگو میں ایک اْجلا پن
صنعت ذو القافتین(ذو قافیہ)
اِس کلام کو کہتے ہیں جس میں دو یا دو سے زائد قوافی استعمال کئے جائیں اِس صنعت میں ایک مطلع دیکھیں۔
اِس کلام کو کہتے ہیں جس میں دو یا دو سے زائد قوافی استعمال کئے جائیں اِس صنعت میں ایک مطلع دیکھیں۔
دشمن کا اقتدار جہاں دیکھتا ہے کیوں
بندھن کا داغدار نشاں کھوجتا ہے کیوں
(نسیم شیخ)
بندھن کا داغدار نشاں کھوجتا ہے کیوں
(نسیم شیخ)
اِس کلام کے اِس مطلع میں پہلے مصرع میں اقتدار جہاں دیکھتا قوافی ہیں جبکہ دوسرے مصرع میں داغدار نشاں کھوجتا قوافی ہیں اِس میں تین قوافی استعمال ہوئے اِس لئے یہ ذو القافتین کہلائے گا جبکہ دشمن اور بندھن قافیہ نہیں کہلائے گا کیونکہ دشمن اور اقتدار کے درمیاں لفظ (کا)نے قافیہ کا تسلل توڑ دیا اگر لفظ کا نہ ہوتا تو یہ چار قوافی پر مشتمل شعر ہوتا۔ایک اور مثال دیکھیں ……
ذائقہ خواہشِ انساں سے مرا جاتا ہے
واسطہ سازشِ شیطاں سے پڑا جاتا ہے
اپنے ہاتھوں میں ہوا کرتا ہے سوچوں کا شرر
واسطہ سازشِ شیطاں سے پڑا جاتا ہے
اپنے ہاتھوں میں ہوا کرتا ہے سوچوں کا شرر
فیصلہ کاوشِ وجداں سے کیا جاتا ہے
مت کرو اتنے ستم ہستیِ خاکی پہ مری
راستہ رنجشِ طولاں سے بھرا جاتا ہے
ہجر کے غم میں سسکتے ہوئے اِس جسم کے ساتھ
عارضہ جنبشِ عریاں سے بندھا جاتا ہے
میں نے سوچوں کو قلم بند کیا تو جانا
مرتبہ گردشِ دوراں سے گرا جاتا ہے
گامِ اْلفت کے تقدس نے دکھایا ہے مجھے
دائرہ بارشِ حیراں سے بڑھا جاتا ہے
جیسے ہی سوچ کو قرطاس کے آنگن میں دھرا
آئنہ بندشِ داماں سے ڈرا جاتا ہے
ہار جاتا ہوں میں جیتی ہوئی بازی یارو
ولولہ شورشِ احساں سے جڑا جاتا ہے
آؤ دیکھو مرے اِس دل کے دریچے میں کبھی
فلسفہ آتشِ ایماں سے جلا جاتا ہے
بار کاندھوں پہ رواں موجِ نسیمی سن لے
ممکنہ لغزشِ دیواں سے دھرا جاتا ہے
مت کرو اتنے ستم ہستیِ خاکی پہ مری
راستہ رنجشِ طولاں سے بھرا جاتا ہے
ہجر کے غم میں سسکتے ہوئے اِس جسم کے ساتھ
عارضہ جنبشِ عریاں سے بندھا جاتا ہے
میں نے سوچوں کو قلم بند کیا تو جانا
مرتبہ گردشِ دوراں سے گرا جاتا ہے
گامِ اْلفت کے تقدس نے دکھایا ہے مجھے
دائرہ بارشِ حیراں سے بڑھا جاتا ہے
جیسے ہی سوچ کو قرطاس کے آنگن میں دھرا
آئنہ بندشِ داماں سے ڈرا جاتا ہے
ہار جاتا ہوں میں جیتی ہوئی بازی یارو
ولولہ شورشِ احساں سے جڑا جاتا ہے
آؤ دیکھو مرے اِس دل کے دریچے میں کبھی
فلسفہ آتشِ ایماں سے جلا جاتا ہے
بار کاندھوں پہ رواں موجِ نسیمی سن لے
ممکنہ لغزشِ دیواں سے دھرا جاتا ہے
صنعت متلون
اِس کے لغوی معنی ہیں رنگ بدلنے والا۔اِس نظم کو متلون نظم کہتے ہیں جو دو یا اِس سے زائد بحروں میں تقطیع ہو جائے اور پڑھی جا سکے۔ایک غزل کا مطلع دیکھیں۔
اِس کے لغوی معنی ہیں رنگ بدلنے والا۔اِس نظم کو متلون نظم کہتے ہیں جو دو یا اِس سے زائد بحروں میں تقطیع ہو جائے اور پڑھی جا سکے۔ایک غزل کا مطلع دیکھیں۔
ضعف سے پاؤں پہ سر آ ہی گیا
ہو گئے نالوں سے اپنے ہم تباہ
ہو گئے نالوں سے اپنے ہم تباہ
صنعت واسع الشفتین
ایسا کلام جس کو پڑھنے سے لب آپس میں نہ ملیں واسع الشفتین کہلاتا ہے غزل پیش ہے۔
ایسا کلام جس کو پڑھنے سے لب آپس میں نہ ملیں واسع الشفتین کہلاتا ہے غزل پیش ہے۔
جل دے رہا ہے شاید عیار ہنستے ہنستے
اقرار کر رہا ہے دل دار ہنستے ہنستے
آجا کہیں سے آکر صحرا کو دریا کردے
یا کر دے شاعری کو شہکار ہنستے ہنستے
تو دل کی دھڑکنوں کا سْر ساز تھا تو کیسے
دل درد سے کیا تھا دوچار ہنستے ہنستے
اقرار کر رہا ہے دل دار ہنستے ہنستے
آجا کہیں سے آکر صحرا کو دریا کردے
یا کر دے شاعری کو شہکار ہنستے ہنستے
تو دل کی دھڑکنوں کا سْر ساز تھا تو کیسے
دل درد سے کیا تھا دوچار ہنستے ہنستے
کل دل کے آئینے کو تیرا خیال جاناں
کرتے ہوئے گیا ہے سنگ سار ہنستے ہنستے
گر داستانِ دل کو تو لکھ سکے تو شاید
چن لے گا راستوں کے دل خار ہنستے ہنستے
اِن سسکیوں سے لے کر اِک آہ دل شکن سی
تخلیق کر رہا ہوں اشعار ہنستے ہنستے
دل کو جلا کے ڈھالا خنجر کی شکل دے دی
یہ حال کر گئی ہے اِک نار ہنستے ہنستے
اندر کا آج شاعر سر کو اْٹھا رہا ہے
دل کے ہلا رہا ہے کچھ تار ہنستے ہنستے
کیسے رکیں یہ آنسو آنکھوں سے آج ہائے
یہ شاعری ہوئی ہے جو دار ہنستے ہنستے
کاٹا ہے رتجگوں گا اِس دل نے کیونکہ چلہ
دل سے گزر گیا ہے انکار ہنستے ہنستے
کرتے ہوئے گیا ہے سنگ سار ہنستے ہنستے
گر داستانِ دل کو تو لکھ سکے تو شاید
چن لے گا راستوں کے دل خار ہنستے ہنستے
اِن سسکیوں سے لے کر اِک آہ دل شکن سی
تخلیق کر رہا ہوں اشعار ہنستے ہنستے
دل کو جلا کے ڈھالا خنجر کی شکل دے دی
یہ حال کر گئی ہے اِک نار ہنستے ہنستے
اندر کا آج شاعر سر کو اْٹھا رہا ہے
دل کے ہلا رہا ہے کچھ تار ہنستے ہنستے
کیسے رکیں یہ آنسو آنکھوں سے آج ہائے
یہ شاعری ہوئی ہے جو دار ہنستے ہنستے
کاٹا ہے رتجگوں گا اِس دل نے کیونکہ چلہ
دل سے گزر گیا ہے انکار ہنستے ہنستے
صنعت رد العجز علی الصدر
اِس صنعت میں پہلا مصرع جن لفظوں پر ختم ہوتا ہے دوسرا مصرع انہیں لفظوں سے شروع ہوتا ہے مثال کے طور پر یہ چند اشعار دیکھیں۔
اِس صنعت میں پہلا مصرع جن لفظوں پر ختم ہوتا ہے دوسرا مصرع انہیں لفظوں سے شروع ہوتا ہے مثال کے طور پر یہ چند اشعار دیکھیں۔
کیا نظم ہو اس صائقہ کی شعلہ فشانی
کی شعلہ فشانی تو وہ ناری ہوئے پانی
ناری ہوئے پانی تو چھٹی منزلِ فانی
فانی ہوئے اور خاک رہ مرگ کی چھانی
کی شعلہ فشانی تو وہ ناری ہوئے پانی
ناری ہوئے پانی تو چھٹی منزلِ فانی
فانی ہوئے اور خاک رہ مرگ کی چھانی
علم بدیع کی مناسبت سے چیدہ چیدہ باتیں زیر بحث آئیں یہ صنعتیں ہیں جنہیں شاعر فنکارانہ انداز میں استعمال کرتا ہے۔میں اِس بات پر یہاں زور دوں گا کہ اِن صنعتوں سے شعر یا کلام تو ہو جاتا ہے مگر وقتی ہوتا ہے اِس کلام کی عمر زیادہ نہیں ہوتی جبکہ اگر خیال عمدہ ہو اور مصرعے وزن میں ہوں تو وہ کلام اپنی مثال آپ ہوتا ہے اور وہ سننے والوں کے ساتھ ساتھ پڑھنے والوں کے لئے بھی تسکین کا باعث بنتا ہے اِس لئے طلبا کو اپنے خیال کی وسعت کے لئے مطالعہ کی کشتی پر سوار ہونا پڑے گا تاکہ با آسانی بحرِ سخن میں سفر کیا جائے۔
صنعتِ جمع……
جس کلام میں کچھ چیزیں ایک حکم میں جمع ہوجائیں اور پھر ہر ایک کو خصوصیت کے ساتھ منسوب کریں تو اْس کو جمع تقسیم کہتے ہیں۔
مثال
صنعتِ جمع……
جس کلام میں کچھ چیزیں ایک حکم میں جمع ہوجائیں اور پھر ہر ایک کو خصوصیت کے ساتھ منسوب کریں تو اْس کو جمع تقسیم کہتے ہیں۔
مثال
رنج راحت غم خوشی کچھ بھی نہیں
جز فریبِ آگہی کچھ بھی نہیں
جز فریبِ آگہی کچھ بھی نہیں
اِس شعر میں پہلے مصرعے میں رنج راحت غم خوشی کو تقسیم کیا گیا ہے پھر ہر ایک کو ایک خصوصیت فریبِ آگہی کے ساتھ جمع کر دیا گیا ہے۔
نسیم شیخ کتاب موجِ سخن