غزل
رسمی سے تعلّق کی شروعات تو کرتے
آپ آئے تو چپ چاپ رہے بات تو کرتے
میں کیسے سمجھ لوں کہ عیادت کے لیے تم
آئے تھے مگر پُرسشِ حالات تو کرتے
دو ہو کے بھی ہم ایک نظر آتے جہاں کو
کچھ ایسے محبت میں کمالات تو کرتے
ساون کے وہ بادل تھے میں یہ مان لوں کیسے
ساون کے اگر ابر تھے برسات تو کرتے
دل رکھتا سدا یاد یہ احسان تمھارا
محرومِ تمنّا پہ عنایات تو کرتے
آدم کی طرح ہوں میں خدا جیسا نہیں ہوں
تم آ کے کبھی مجھ سے ملاقات تو کرتے
ناراض ہوئے حد سے گزرنے پہ عبث تم
میں کتنا قریب آؤں ہدایات تو کرتے
شاعر علی شاعرؔ