غزل
تیز چلتی ہے یہ آرام کہاں دیکھتی ہے
زندگی عشق میں انجام کہاں دیکھتی ہے
خود کو گروی بھی رکھا خواب بھی سستے بیچے
خواہشِ وصل بھلا دام کہاں دیکھتی ہے
دنیا کہتی ہے مری آنکھ نے دنیا دیکھی
اس نے دیکھے ہیں جو آلام کہاں دیکھتی ہے
اب بھی موقع ہے بڑا نام بڑا رہنے دے
تیغ چلتی ہے تو پھر نام کہاں دیکھتی ہے
فکرِ تعمیر میں تخریب کو شامل نہ کرو
نقص تو ڈھونڈتی ہے کام کہاں دیکھتی ہے
اسد رضا سحر