غزل
زمیں ہوتی نہیں اور نہ آسماں ہوتا
مرے بغیر یہ سونا بھرا جہاں ہوتا
ہمی نے ان کی طرف سے منا لیا دل کو
وہ کرتے عذر تو یہ اور بھی گراں ہوتا
سمجھ تو یہ کہ نہ سمجھے خود اپنا رنگ جنوں
مزاج یہ کہ زمانہ مزاج داں ہوتا
بھری بہار کے دن ہیں خیال آ ہی گیا
اجڑ نہ جاتا تو پھولوں میں آشیاں ہوتا
دماغ عرش پہ ہے تیرے در کی ٹھوکر سے
نصیب ہوتا جو سجدہ تو میں کہاں ہوتا
آل۔ رضا رضا