غزل
گھر میرے آتے آتے وہ دلبر پلٹ گیا
وہ کیا پلٹ گیا کہ مقدر پلٹ گیا
ہنگام قتل دیکھنے پائے نہ شکل ہم
تلوار مار کر وہ ستم گر پلٹ گیا
مجھ سے فقیر کو نہ دیا چین عشق نے
تکیہ الٹ گیا کبھی بستر پلٹ گیا
اے یار دیکھ کر تری قامت کی راستی
گلزار میں ہر ایک صنوبر پلٹ گیا
ناراض ہو کے پھر جو گئے تم شب وصال
میرا نصیب اے مہ انور پلٹ گیا
آنکھیں پھرا کے تم نے دکھایا جو خال و خد
برہم کچہری ہو گئی دفتر پلٹ گیا
کیا سرنگوں زمانہ ہوا میرے سامنے
سر پر ہر ایک شاہ کے افسر پلٹ گیا
عبدالمجید خواجہ شیدا