غزل
انقلابات کی زنداں سے ہوا آتی ہے
خون مقتل سے مجھے بوئے حنا آتی ہے
مار ڈالے نہ کہں عشق کا صحرائے جنوں
سوئے زنداں طبعِ آزاد لئے جاتی ہے
ماند پڑ جائے کہیں اس بت مر مر کی چمک
اس کے ڈھکنے کو شعاعوں کی قبا آتی ہے
کب تلک روکے گا مجھ کو یہ طلسمات جہاں
چند دن آدمی دنیا میں مقاماتی ہے
تو بھی تا دم ہے مرے پاس مرا اپنا ہے
بوجھ جب تک بھی مری پشت اٹھا پاتی ہے
میں نبٹ لوں گی خود ہی اتنا گراں بار نہیں
مسئلہ تیرا نہیں ہے یہ مرا ذاتی ہے
تو بھی اک روز نگاہوں سے اتر جائے گا
سر پہ دستار ترے شیج یہ خیراتی ہے
خوش نہیں آئے گا وہ شخص منوّر تم کو
مجھ کو معلوم ہے وہ فطرتاََ جذباتی ہے
منور جہاں منور