غزل
ہاتھوں کا لمس مجھ کو کبھی بھیج بھی تو دے
خوشبو سا ہے خیال ترا زندگی تو دے
الفاظ گنگناؤں تری چاہتوں کے میں
دے عشق کا شعور مجھے شاعری تو دے
در دل کے بج رہے ہیں ہواؤں کے زور سے
اے شاعر فراق مجھے روشنی تو دے
اب آ گیا یقین تری چاہتوں پہ ہے
بہکی ہوئی رتوں کو ذرا نغمگی تو دے
محرم تو میرا بن کے ذرا اوڑھ لے بدن
ہر درد بھول جائے دعاؔ ہمرہی تو دے
دعا علی