غزل
بڑھے ذرا جو یہ موج وحشت تو ہم بھی کوئی کمال کر لیں
کسی کو کوئی جواب دے دیں کسی سے کوئی سوال کر لیں
اس ایک سونے سے گھر کے اے دل رکھا ہی کیا ہے اب اس گلی میں
کہ جائیں کرنے کو زخم تازہ اور اپنی آنکھوں کو لال کر لیں
ملا جو بن کر وہ اجنبی سا کہا ہے دل نے یہ آہ بھر کر
بھلا دیں ساری گزشتہ باتیں گئے دنوں کا ملال کر لیں
یہی ہے آنکھوں کا بس تقاضا سجیں دریچے پھر اس گلی کے
تماشا ہونے کو جائیں پھر ہم پھر اپنا ویسا ہی حال کر لیں
ہوائے ہجراں رکے تو کر لیں مداوا اپنی اداسیوں کا
گلے لگا لیں پھر اس کو خاورؔ پھر ایک رشتہ بحال کر لیں
اقبال خاور