غزل
کہیں فضا میں کوئی ابر تیرنا تو چاہئے
کہاں ہوائیں کھو گئی ہیں سوچنا تو چاہئے
یہ اور بات باغ باغ کر گئیں طبیعتیں
ذرا قریب سے ہنسی کو دیکھنا تو چاہئے
یہ مصلحت بھی کیا کہ دل کی وسعتیں ہوں منجمد
رگوں میں زندگی کا خون دوڑنا تو چاہئے
میں ان اداسیوں کو ان رفاقتوں کو کیا کروں
کرن کو جاگنا ہوا کو بولنا تو چاہئے
انہیں بھی نوک سنگ سے ذرا ہلا کے دیکھ لوں
کہ پانیوں کا یہ سکوت توڑنا تو چاہئے
یہ کیا ہوا بڑھا کے سلسلے مجھے بھلا دیا
کہیں ملے تو جعفرؔ اس سے پوچھنا تو چاہئے
جعفر شیرازی