غزل
پل دو پل کی جو آشنائی تھی
مجھ کو لگتا تھا کل خدائی تھی
میں نے ٹھکرا دیا تھا دنیا کو
جب یہاں تو پلٹ کے آئی تھی
پھر کسی دوسرے کی ہو جانا
یہ بتا مجھ میں کیا برائی تھی
مانگتے کیوں ہو تم دلیل خدا
گر خدا تھا تو یہ خدائی تھی
روگ بھی مشترک جدید سا تھا
ہر طرف ایک ہی دہائی تھی
جس کے لب پر سوال آیا تھا
آگ اس نے ہی آ لگائی تھی
نجمؔ اس موڑ پر چلے آئے
جس جگہ سانس ڈگمگائی تھی
جی اے نجم