غزل
ذہن میں رہتا ہے اس سے رابطہ ٹوٹا ہوا
دیکھنا پڑتا ہے مجھ کو آئینہ ٹوٹا ہوا
کیا کروں شدت سے ہو گا اس کو میرا انتظار
ان دنوں زیرِقدم ہے راستہ ٹوٹا ہوا
ڈر رہا ہوں مسئلوں کے حل ادھورے رہ نہ جائیں
کیا کہوں، ہر شخص کا ہے مسئلہ ٹوٹا ہوا
مخبروں کی یہ خبر ہے وہ کسی کی تھی کبھی
پھول جو اس نے دیا وہ پھول تھا ٹوٹا ہوا
میں مراحل سے گزر سکتا ہوں لیکن کیا کروں
ہے من و تو کا ہر اک ہی مرحلہ ٹوٹا ہوا
میں توسط سے محبت کے ملا خود کو مگر
جاں ملی بچھڑی ہوئ اور دل ملا ٹوٹا ہوا
تکیہ، بستر منتشر تھے، گھر بلاتے کیا اسے
تھا ہمارے پاس سامانِ وفا ٹوٹا ہوا
توڑتا ہے دو طرح، ہر توڑنے والا مجھے
پیش آتا ہے مجھے ہر حادثہ ٹوٹا ہوا
تیشہ، پتھر دے کے مجھ کو وہ گئ: پھر اس کے بعد
میں نے جو بت بھی بنایا، وہ بنا ٹوٹا ہوا
جو سلامت تھا وہ محسن رائگانی لے گئ
اور ہماری ذات کے اندر بچا ٹوٹا ہوا
محسن اسرار