غزل
دور فطرت سے طبیعت کا دھواں ہوتا ہے
جب اسے یاد کروں حسن عیاں ہوتا ہے
چاک سے مٹی اٹھاؤں تو در و بام بنیں
در و دیوار اگر ہوں تو مکاں ہوتا ہے
عشق ہو جائے تو سب مشکلیں آساں ہو جائیں
عشق ہونا مگر آساں کہاں ہوتا ہے
کچھ سماعت میں اتر آتا ہے یادوں کو سکوت
ورنہ آواز کا فقدان کہاں ہوتا ہے
زندگی گھر کو سجانے کے لئے کافی ہے
آدمی بے سر و سامان کہاں ہوتا ہے
شک اچانک ہی اتر آتا ہے دل میں ورنہ
حادثہ ہونے کا امکان کہاں ہوتا ہے
میزبانی کوئ کرتا ہے کہاں پوری طرح
اور مہمان بھی مہمان کہاں ہوتا ہے
میرے نذرانے کو احسان کے زمرے میں نہ رکھ
تحفہ دینا کوئ احسان کہاں ہوتا ہے
مضطرب ہونا اداکاری ہے ورنہ محسن
عشق اعصاب کا ہیجان کہاں ہوتا ہے
محسن اسرار