loader image

MOJ E SUKHAN

اردو شعراء

04/08/2025 13:41

ادھورا عشق تھا سو ہم ادھورے رہ گئے ہیں

غزل

ادھورا عشق تھا سو ہم ادھورے رہ گئے ہیں
بدن رکھتے ہوئے دونوں اچھوتے رہ گئ ہیں

برائے تجربہ بچھڑے ذرا سی دیر کو ہم
پھر اس کے بعد تو گویا بچھڑ کے رہ گئے ہیں

وہ میری ڈائری لوٹا گئ ہے  حسبِ وعدہ
ورق پر ڈائری میں میری آدھے رہ گئے ہیں

نہیں ہم دے سکے حسبِ طلب دنیا کو کچھ بھی
ہمیں حیرت ہے ہم دنیا میں کیسے رہ گئے ہیں

کروں گا کس طرح میں اس کے غم کی باریابی
برے دن کھو گئے ہیں صرف اچھے رہ گئے ہیں

زمیں پر بھی نظر آتی ہیں بس قبریں ہی قبریں
فلک پر بھی ستارے ہی ستارے رہ گئے ہیں

جواں : مالِ غنیمت لے گئے سب ساتھ اپنے
مگر جو جنگ جیتے تھے وہ بوڑھے رہ گئے ہیں

ملاقاتیں ، کہانی لے گئ تصویر کر کے
سرِ کردار دونوں کے ہیولے رہ گئے ہیں

بتا دینا اسے اے مخبرو ! کچھ پھول دے کر
ہمیں لگنے لگا ہے ہم اکیلے رہ گئے ہیں

کہاں کی بات، کیسی مشورت کیسے اشارے
فقط اب دھیان میں اس کے تقاضے رہ گئے ہیں

پتہ تو چل گیا ہے اب نہیں ہے عشق ہم کو
مگر ہاں عشق کے کچھ تانے بانے رہ گئے ہیں

یہ کس گرداب میں تو نے ڈبویا تھا مجھے رات
سمندر کھو گیا ہے اور کنارے رہ گئے ہیں

محسن اسرار۔

Email
Facebook
WhatsApp

مزید شاعری

رباعیات

غزلیات
نظم