غزل
اس کی طرف سے کوئ اشارہ ہوا نہ تھا
لیکن ہمیں یہ شبد گوارا ہوا نہ تھا
خیرات اس نے حسبِ ضرورت نہ دی ہمیں
پوری طرح ہمارا گزارا ہوا نہ تھا
منسوب میرے نام سے اس نے کیا وہ دن
وہ دن جو اس کے ساتھ گزارا ہوا نہ تھا
احسان مند اس کے ہوئے پھر بھی ہم بہت
گو اس نے جو دیا وہ ہمارا ہوا نہ تھا
لے آئی آسمان سے وہ توڑ کر مجھے
ہر چند کہ میں پورا ستارہ ہوا نہ تھا
اک عذر اس نے رکھ کے کیا بند لین دین
میں جانتا تھا اس کو خسارہ ہوا نہ تھا
اس دشت میں گدھوں نے کیا تھا مرا علاج
اچھا ہوا میں موت کا مارا ہوا نہ تھا
مجھ کو نہیں پکارا گیا میرے نام سے
میں نے تو کوئی روپ بھی دھارا ہوا نہ تھا
لے کر گلاب ائی تھی وہ ملنے آج بھی
پر آج اس نے خود کو سنوارا ہوا نہ تھا
محسن اسرار