غزل
حدیث شوق کہیں یا کریں حیات کی بات
ہر ایک بات تری چشم التفات کی بات
خزاں کا ذکر بھلا موسم بہار میں کیا
طلوع صبح درخشاں میں کیسی رات کی بات
حدیث درد و الم کو اگر الگ کر لیں
تو کس زباں سے کریں کرب کائنات کی بات
بہار مے کدہ و ساقی و شراب و شباب
کوئی سنے تو کہیں دل کے واردات کی بات
غم حیات کا درماں نہ کر سکے لیکن
بہت ہی غور سے سنتے رہے حیات کی بات
رہ طلب میں نشیب و فراز منزل کی
انہیں خبر جو سمجھتے ہیں حادثات کی بات
میں اپنے ہوش بھی قائم نہ رکھ سکا جب فیضؔ
وہ ایک رات کا قصہ ہے ایک رات کی بات
فیض تبسم تونسوی