غزل
ٹوٹے ہوئے خوابوں کی چبھن کم نہیں ہوتی
اب رو کے بھی آنکھوں کی جلن کم نہیں ہوتی
کتنے بھی گھنیرے ہوں تری زلف کے سائے
اک رات میں صدیوں کی تھکن کم نہیں ہوتی
ہونٹوں سے پئیں چاہے نگاہوں سے چرائیں
ظالم تری خوشبوئے بدن کم نہیں ہوتی
ملنا ہے تو مل جاؤ یہیں حشر میں کیا ہے
اک عمر مرے وعدہ شکن کم نہیں ہوتی
قیصرؔ کی غزل سے بھی نہ ٹوٹی یہ روایت
اس شہر میں نا قدرئ فن کم نہیں ہوتی
قیصر الجعفری